ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں جس چیز کا حکم دوں اسے مانو، اور جس چیز سے روک دوں اس سے رک جاؤ“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 1]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12392)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/355) (صحیح)» (اس سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں، لیکن متابعت سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث کی تخریج میں دئیے گئے حوالہ جات)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز میں نے تمہیں نہ بتائی ہو اسے یوں ہی رہنے دو ۱؎، اس لیے کہ تم سے پہلے کی امتیں زیادہ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو طاقت بھر اس پر عمل کرو، اور جب کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے رک جاؤ“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 2]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12361)، الحدیث أخرجہ من طریق الأعمش: صحیح مسلم/الحج 73 (1337)، الفضائل 37 (131)، سنن الترمذی/العلم 17 (6279)، مسند احمد (2/495)، وقد أخرجہ من طرق أخری: صحیح البخاری/الاعتصام 2 (7288)، صحیح مسلم/الفضائل 37 (130)، سنن النسائی/الحج 1 (2620)، مسند احمد (2/247، 258، 313، 428، 448) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «ذروني ما تركتكم» میں «ما» مصدریہ ظرفیہ ہے، یعنی جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں میں تم سے کچھ نہ کہوں اس کے بارے میں تم مجھ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے بچو۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 3]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «من يطع الرسول فقد أطاع الله»”جو اطاعت کرے رسول کی وہ اطاعت کر چکا اللہ کی“(سورة النساء: 80)۔
ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 4]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7442، ومصباح الزجاجة: 2)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/82)، سنن الدارمی/المقدمة 31 (327) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہوبہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت غربت و افلاس اور فقر کا تذکرہ کر رہے تھے، اور اس سے ڈر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگ فقر سے ڈرتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور تم پر دنیا آئندہ ایسی لائی جائے گی کہ اس کی طلب مزید تمہارے دل کو حق سے پھیر دے گی ۱؎، قسم اللہ کی! میں نے تم کو ایسی تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے“۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، قسم اللہ کی! آپ نے ہم کو ایک تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا، جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 5]
وضاحت: ۱؎: «إلا هيه» میں «ھی» کی ضمیر دنیا کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس کے آخر میں «ھا» ھائے سکت ہے۔ ۲؎: اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تمہیں ایک ایسے حال پر چھوڑا ہے کہ تمہارے دل پاک و صاف ہیں، ان میں باطل کی طرف کوئی میلان نہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے تنگی و خوشحالی کوئی بھی چیز انہیں پھیر نہیں سکتی۔
قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ۱؎، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 6]
وضاحت: ۱؎: «طائفة» کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے قلت مراد ہے، یعنی یہ ایک ایسا گروہ ہو گا جو تعداد میں کم ہو گا، یا تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ایک بڑے رتبے والا گروہ ہو گا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس گروہ کے بار ے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ پھر اس سے مراد کون ہوں گے، اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاملین بالحدیث کو یہ بشارت دی ہے کہ کسی کی موافقت یا مخالفت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، اس لئے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حفاظت و امان میں ہیں، اس لئے متبع سنت کو اس حدیث کی روشنی میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ حدیث رسول کے ثابت ہو جانے کے بعد سلف صالحین کے فہم و مراد کے مطابق اس پر بلا خوف و خطر عمل کرے اور اگر ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہو تو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اللہ کا آخری دین ہے، اور اسی پر چل کر ہمارے لئے نجات ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والا ہو گا، اس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 7]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 14278، ومصباح الزجاجة: 3)، وقد أ خرجہ: مسند احمد (3/436، 4/97) (حسن صحیح)»
ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ہمیشہ اس دین میں نئے پودے اگا کر ان سے اپنی اطاعت کراتا رہے گا ۱؎“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 8]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12075، ومصباح الزجاجة: 4)، مسند احمد (4/200) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: نئے پودے اگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نئے نئے لوگوں کو پیدا فرمائے گا، جو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے۔
شعیب کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا: تمہارے علماء کہاں ہیں؟ تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ لوگوں پر غالب رہے گا، کوئی اس کی مدد کرے یا نہ کرے اسے اس کی پرواہ نہ ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 9]
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے بہرہ ور ہو کر حق پر قائم رہے گا، مخالفین کی مخالفت اسے (اللہ کے امر یعنی:)۱؎ قیامت تک کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 10]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے ایک لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس آیت کی تلاوت کی: «وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله»”یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے“(سورۃ الانعام: ۱۵۳)۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 11]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2357، ومصباح الزجاجة: 5)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/293، 316، 322، 385) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: السنہ لابن ابی عاصم: 16، وتعلیق عوض الشہری علی مصباح الزجاجة: 5)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ یہ قرآن جو میں نے تمہارے واسطے بھیجا، اور جو رویہ اور طریقہ اس میں تمہارے چلنے کو مقرر فرمایا ہے، یہی میری رضا مندی اور میری طرف پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو اور اس کے علاوہ دیگر راستے تم کو نجات کے راستہ سے بہکا دیں گے، کیونکہ وہ سب شیطان کے راستے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکمال رأفت و رحمت یہ سب طریقے صاف طور پر ہر آدمی کے لئے واضح فرما دیئے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مجالد:ضعيف و لبعض الحديث شواھد قوية عند ابن حبان (موارد:1741) وغيره وحديث أحمد (1/ 435) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 375