ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 3]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «من يطع الرسول فقد أطاع الله»”جو اطاعت کرے رسول کی وہ اطاعت کر چکا اللہ کی“(سورة النساء: 80)۔
من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3
اردو حاشہ: (1) یہ مسئلہ قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ﴿مَّن يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾(النساء: 80) جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے (اصل میں) اللہ کی اطاعت کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام اپنی رائے اور پسند کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے مطابق بیان فرماتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾(النجم: 4,3) ”وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے، بلکہ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام پر اسی طرح عمل کرتے تھے۔ جس طرح دوسرے مومنین، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو عام مومنوں سے کہیں زیادہ تقویٰ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ پیش فرماتے تھے۔
(2) قرآن مجید، فرامین نبوی اور صحابہ و تابعین کرام کے اقوال، سنت نبوی کی پیروی اور اتباع کو لازم ٹھہراتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند فرامین درج ذیل ہیں:
(ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لوگو! اصحاب الرائے سے بچو، کیونکہ وہ سنت کے دشمن ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو حفظ کرنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنی رائے سے مسائل بیان کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ دیکھئے: (مفتاح الجنة في الإحتجاج بالسنة، ص: 47)
(ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کو عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: مت پڑھا کرو۔ وہ کہنے لگے: میں تو پڑھوں گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں ان دو رکعتوں پر ثواب کی بجائے سزا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾(الأحزاب: 36) ”کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔“(سنن الدارمي، المقدمة، باب ما يتقي من تفسير حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلي الله عليه وسلم، حديث: 438)
(ج) حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جب تو کسی شخص کو سنت نبوی کی تعلیم دے اور وہ کہے: سنت نبوی کو چھوڑیے قرآن سے تعلیم دیں۔ تو جان لو ایسا شخص گمراہ ہے۔“ دیکھیے: (مفتاح الجنة، ص: 35)
(د) امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمان نبوی سنایا تو وہ کہنے لگا: فلاں فلاں شخص تو ایسے ایسے کہتے ہیں۔ امام صاحب کہتے ہیں: میں تجھے فرمان نبوی سناتا ہوں اور تو مجھے لوگوں کی آراء سناتا ہے؟ جا! آج کے بعد میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ دیکھیے: (إيقاظ الهمة لإتباع نبي الأمة، ص: 123) اسلاف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ ائمہ کی تقلید اور لوگوں کی آراء کی پیروی قطعاً درست اور جائز نہیں۔
(3) علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (وَالتَّقْلِيْدُ قَبُولُ قَوْلِ الْغَيْرِ بِلَا دَلِيْلٍ فَكَأَنَّه لِقَبُولِهِ جَعَلَهُ قلَادَةً فِي عُنُقِهِ)(شرح قصيدة أمالي، ص: 34) ”کسی دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔ گویا کہ مقلد شخص نے امام کے قول کو قبول کر کے گلے کا ہار بنا لیا ہے۔“
(4) تقلید کی ابتدا خیرالقروں کے بعد چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔ اس سے پہلے یہ بدعت موجود نہ تھی بلکہ صحابہ کرام، تابعین کرام اور ان کے شاگرد قرآن و سنت کی پیروی ہی کو واجب سمجھتے تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (إِعْلَمْ اَنَّ النَّاسّ كَانُوا قَبْلَ الْمِائَةِ الرَّابِعَةِ غَيْرُ مُجْمَعِيْنَ عَلَي التَّقْلِيدِ الْخَالِصِ لِمَذْهَبٍ وَّاحِدٍ) ”جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک خالص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے.“(حجة الله البالغة، ص: 157)
(5) تقلید کے رد میں صحابہ کرام اور ائمہ مذاہب کے فرامین ملاحظہ ہوں:
(ا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کی نہ ان سے وحی منقطع کی حتیٰ کہ ان کی امت کو لوگوں کی آراء سے بے پروا فرما دیا۔“ دیکھیے (حقیقة الفقة، ص: 75)
(ب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دے، تم کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا تھا اور فلاں شخص نے یوں فرمایا ہے، یعنی فرمان نبوی کے مقابلے میں کسی شخص کی رائے کو پیش کرنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ (حقیقة الفقة، ص: 76)
(ج) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی شخص دین کے بارے میں کسی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ (متبوع) مومن رہا تو اس کا مومن بھی مقلد رہے گا اور اگر وہ کافر ہوا تو اس کا مقلد بھی کافر ہو جائے گا۔ اس اعتبار سے یہ تقلید بلاشبہ برائی میں اُسوہ ہے۔ (الإِیْقَاظُ لهمم أُولِي الأَبْصَارِ) أَعَاذَنَااللهُ مِنْهُ. (د) حضرت عبداللہ بن معتمر کہتے ہیں: (لَا فَرقَ بَيْنَ بَهِيْمَةٍ تَنْقَادُ وُإنْسَانٍ يُقَلِّدُ) ”مقلد شخص اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔“(حقیقة الفقة، ص: 78)
(ہ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لَا تُقَلِّدْنِي وَلَا تُقَلِّدَنَّ مَالِكاً وَّلَا غَيْرَهُ وَخُذِالَأحْكَامَ مِنْ حَيْثُ أَخَذُوْا مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ)(حقيقة الفقة‘ ص: 90) ”میری تقلید نہ کرنا، نہ مالک کی، نہ کسی اور کی تقلید کرنا۔ احکام کو وہاں سے حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیے ہیں یعنی کتاب و سنت سے۔“ نیز فرمایا: ”کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ میری دلیل سے واقف ہوئے بغیر میرے کلام کا فتویٰ دے۔“(حقیقة الفقة، ص: 88)
(ر) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے (وہ واجب الإتباع ہے۔)“
(ز) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جب تم دیکھو کہ میرا قول حدیث نبوی کے خلاف ہے تو حدیث نبوی پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔“ نیز فرمایا: (إِذَا صَحَّ الْحَدِيْثُ فَهُوَ مَذْهَبِي)(عِقْدُ الْجِيْدِ وَ حُجَّةُ اللهِ الْبَالِغَة: 1؍157) ”جب صحیح حدیث مل جائے تو میرا مذہب وہی ہے“۔
(ح) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”کسی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں۔“(کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔)
(ط) امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (هَل يُقَلِّدُ اِلَّا عَصِيٌّ) ”تقلید نافرمان ہی کرتا ہے۔“
(ی) علامہ جاراللہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (إِنْ كَانَ لِضَلاَلٍ اُمٌّ فَالتَّقْلِيْدُ اُمُّهُ) ”اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو وہ تقلید ہی ہوتی۔“(حقیقة الفقة، ص: 58، 51) ائمہ سلف کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ گمراہی کا اصل اور اس کی جڑ تقلید ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے اور تقلید سے نجات دے۔ آمین
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 22
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اللہ کی اطاعت` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے (میرے مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 22]
شرح الحديث: جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے الله کی اطاعت کی: یقیناً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان قرآن مجید کی اس آیت کے عین مطابق ہے: «مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهُ»[النساء: 80] "جس شخص نے رسول کی اطاعت کی درحقیقت اس نے الله کی اطاعت کی۔ " اسی طرح معصیت کے متعلق بھی......آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «وَمَنْ يَّعْصِنِىْ فَقَدْ عَصَى اللهَ» "اور جس نے میری نافرمانی کی، درحقیقت اس نے الله کی نافرمانی کی۔ " اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی اہمیت بیان کی گئی ہے، لہذا کوئی شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرکے الله کا فرمانبردار نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی کرکے الله کی بندگی ہو سکتی ہے۔ «وَمَنْ يُّطِعِ الْأَمِيْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِيْ، وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيْرَ فَقَدْ عَصَانِيْ .» "اور جس شخص نے امیر کی اطاعت کی درحقیقت اس نے میری اطاعت کی، اور جس شخص نے امیر کی نافرمانی کی درحقیقت اس نے میری نافرمانی کی۔ " حدیث کے اس جزء میں امیر کی اطاعت کی اہمیت بیان کی گئی ہے، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کو واضح کرتے ہوئے، سیدنا ابوذر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ امیر کی اطاعت کرو اگرچہ وہ غلام، حبشی اور ناک کٹا ہی کیوں نہ ہو۔ [صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 4755] لیکن اگر امیر کا حکم قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہوگا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا»[النساء: 59] "اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو الله تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی الله علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، الله تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ " اس آیت میں الله تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے وہ فوج کے افراد ہوں، یا عام لوگ، انہیں اپنی، اپنے رسول اور مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام الله کی نافرمانی کا حکم دیں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی؟ اس لیے شرعی قانون ہے کہ: «لَا طَاعَةِ لِمَخْلُوْقٍ فِىْ مَعْصِيَتِ الْخَالِقْ»[ارشاد السارى: 216/10] "جہاں خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ " امام بخاری رحمة الله علیه نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبد الله بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اہم مہم پر بطور امیر کے روانہ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4584] سيدنا علی رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہو جائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الاحكام، رقم: 7145] مزید برآں امام بخاری رحمة الله علیه نے اپنی صحیح، کتاب الجہاد والسیر، اور "کتاب الأحکام" میں باب قائم کیا ہے: «بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْاِمَامِ مَالَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً» "باب، امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔ " اور اس کے تحت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث لائے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ»[صحيح بخاري، رقم: 2955، 7144] ”مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا۔“
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 22
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4198
´امام کی اطاعت کی ترغیب کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔“[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4198]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت واضح ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے امیر کی اطاعت کی ترغیب اس طرح دی ہے کہ اس کی اطاعت کو اپنی اور ﷲ عزو جل کی اطاعت ہی قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے کئی صحابہ کو امیر مقرر فرمایا جیسا کہ اہل یمن کی طرف حضرت معاذ بن جبل، حضرت علی اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کو مقرر فرمایا۔ (2) رسول اﷲ ﷺ نے جس اطاعت کی ترغیب دلائی ہے وہ مشروط و مقید اطاعت ہے، یعنی صرف معروف میں اطاعت، اﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں رسول اﷲ ﷺ کا یعنی خالق کی نافرمانی کی صورت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4198
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2859
´امام کی اطاعت و فرماں برداری کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، (اسی طرح) جس نے امام کی بات مانی اس نے میری بات مانی، اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2859]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اصل میں اللہ کی اطاعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی مرضی سے حکم نہیں دیتے بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے احکام کو نافذ کرتے ہیں یا اللہ کی اجازت سے انتقامی احکام جاری کرتے ہیں۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی حرام ہے کیونکہ یہ اصل میں اللہ کی نافرمانی ہے۔
(3) امام سے مراد مسلمانوں کا مرکزی حکمران یعنی خلیفہ اور امیرالمومنین بھی ہوسکتا ہے اور خلیفہ کا مقرر کردہ کوئی گورنر جج امیر لشکر وغیرہ بھی۔ رسول اللہ ﷺ مرکزی حکمران کی حیثیت سے ان عہدوں پر اہلیت رکھنے والے افراد کو فائز فرماتے تھے۔
(4) مسلمان حکمرانوں کے جو احکام صراحتاً شرعی احکام کے منافی ہوں انھیں تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ افسر کو شرعی حکم کی طرف توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ اپنےحکم میں تبدیلی کرلے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2859
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4747
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو میری نافرمانی کرتا ہے، اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو میرے امیر کی اطاعت کرے گا، تو اس نے میری اطاعت کی اور جو میرے امیر کی نافرمانی کرے گا، اس نے میری فرمانی کی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4747]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رسول، اللہ کا نمائندہ اور اس کا پیغام رساں ہوتا ہے، اس لیے اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ جو رسول کی اطاعت کرتا ہے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، لہٰذا رسول کی اطاعت اس کے حکم کی تعمیل ہے، اسی طرح رسول اللہ کا مقرر کردہ امیر آپ ہی کی بات کا حکم دیتا ہے اور آپ نے اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اس لیے اس کی اطاعت رسول کی اطاعت ہے اور اس کی نافرمانی رسول کی نافرمانی ہے، اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے، جس طرح رسول، اللہ کی منشاء اور رضا کے بغیر کوئی حکم نہیں دیتا، اس طرح امراء اور حکام بھی کتاب و سنت کو نظر انداز کر کے اپنی طرف سے کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے مقام اور حیثیت سے تجاوز کرتے ہیں، اس لیے ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4747
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2957
2957. اور اسی سند ہی سے روایت ہے (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس شخص نے حاکم شریعت کی فرمانبرداری کی تو بلا شبہ اس نے میری فرمانبرداری کی اور جو شخص حاکم شریعت کی نافرمانی کرے گا تو بلا شبہ اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام تو ڈھال کی طرح ہے جس کے زیر سایہ جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی دفاع کیا جا تا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اسے ثواب ملےگا اور اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس کے سبب گناہ گار ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2957]
حدیث حاشیہ: یعنی امام کی ذات لوگوں کا بچاؤ ہوتی ہے۔ کوئی کسی پر ظلم کرنے نہیں پاتا۔ دشمنوں کے حملہ سے اسی کی وجہ سے حفاظت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہمہ وقت مدافعت کے لئے تیار رہتا ہے۔ ان احادیث سے امام وقت کی شخصیت اور اس کی طاقت پر روشنی پڑتی ہے اور سیاست اسلامی و حکومت شرعی کا مقام ظاہر ہوتا ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے آج ہر جگہ اسلام غریب ہے اور مسلمان غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان احادیث پر ان حضرات کو بھی غور کرنا چاہئے جو اپنے کسی مولوی صاحب کو امام وقت کا نام دے کر اس کی بیعت کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور حالت یہ کہ مولوی صاحب کو حکومت کے معمولی چپراسی جتنی طاقت و سیاست حاصل نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2957
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7137
7137. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے میرے امیر کی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7137]
حدیث حاشیہ: لیکن اگر امیر کاحکم قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7137
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2957
2957. اور اسی سند ہی سے روایت ہے (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس شخص نے حاکم شریعت کی فرمانبرداری کی تو بلا شبہ اس نے میری فرمانبرداری کی اور جو شخص حاکم شریعت کی نافرمانی کرے گا تو بلا شبہ اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام تو ڈھال کی طرح ہے جس کے زیر سایہ جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی دفاع کیا جا تا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اسے ثواب ملےگا اور اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس کے سبب گناہ گار ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2957]
حدیث حاشیہ: 1۔ حاکم شریعت کی ذات لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرے پر ظلم نہیں کرتا اور دشمن بھی خوفزدہ رہتاہے،لہذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ 2۔ اس حدیث سے امام شریعت کی شخصیت اور اس کی طاقت کا بھی پتہ چلتا ہے،نیزشرعی حکومت کا مقام ظاہر ہوتا ہے جس کے نا ہونے کی وجہ سے آج ہرجگہ اسلام غربت کی حالت میں ہے اور مسلمان بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 3۔ امام سے مراد ہر وہ بااختیار شخص ہے جو لوگوں کے معاملات کا منتظم ہو جس کے امرونہی اور جہادی معاملات میں اتباع کیا جاتا ہو۔ حدیث کے یہ معنی ہیں کہ امام اور حکمران کے ساتھ مل کر جہاد وقتال کیا جائے۔ اس کےبغیر جہاد کرنے کے وہ فوائد حاصل ہونے نہایت مشکل ہیں جو جہاد سے مقصود ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2957
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7137
7137. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے میرے امیر کی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7137]
حدیث حاشیہ: 1۔ اطاعت سے مراد احکام کی بجاآوری اور منہیات سے رک جانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بعینہ اللہ کی اطاعت اس لیے ہے کہ وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے۔ اسی طرح حکومت کا نظم ونسق قائم رکھنے کے لیے حکام وقت کی بات مانناضروری ہے اور ان کی اطاعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اطاعت قراردیا ہے۔ لیکن اگر کوئی حاکم وقت قرآن وحدیث کے خلاف حکم دے تو اسے چھوڑ کر قرآن وحدیث پر عمل کرنا ہوگا تاکہ شریعت کی بالادستی قائم رہے۔ 2۔ قریش،نظام حکومت سے ناواقف اور انجان تھے اور اپنے حکام کی بات نہیں مانتے تھے،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کواُجاگر کیا ہے،چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی جماعت میں تشریف فرما تھے تو فرمایا: \"کیا تمھیں علم نہیں ہے کہ میری اطاعت اللہ کی علامت ہے؟\"صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جواب دیا: کیوں نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: \"یہ بھی اطاعت کا حصہ ہے کہ تم اپنے امراء حکام کا کہامانو۔ واللہ اعلم۔ (مسنداحمد 2/93) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7137