ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: ”(عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے «مكافئتان» کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2834]
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں بیٹھے رہنے دو (یعنی ان کو گھونسلوں سے اڑا کر تکلیف نہ دو)“، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے: ”لڑکے کی طرف سے (عقیقہ میں) دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، اور تمہیں اس میں کچھ نقصان نہیں کہ وہ نر ہوں یا مادہ“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2835]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/العقیقة 3 (4223، 4222)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3162)، (تحفة الأشراف: 18347)، وقد أخرجہ: دی/ الأضاحی 9 (2011) (ضعیف)» (یہ حدیث ضعیف ہے،اس کی سند میں اضطراب ہے، عقیقہ سے متعلق حدیث کے لئے اوپر اور نیچے کی احادیث دیکھئے، ملاحظہ ہو: صحیح ابوداود 8/183)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (4152) أخرجه النسائي (4222 وسنده حسن) والحميدي (346 وسنده صحيح)
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(عقیقے میں) لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہی دراصل حدیث ہے، اور سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۸۳۵) وہم ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2836]
وضاحت: ۱؎: یعنی: عبید اللہ بن ابی یزید کے بعد سند میں «عن ابیہ» کا اضافہ سفیان کا وہم ہے، حماد کی روایت میں یہ اضافہ نہیں ہے اور یہی دیگر لوگوں کی روایتوں میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (2835)
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے اور عقیقہ کا خون اس کے سر پر لگایا جائے ۱؎“۔ قتادہ سے جب پوچھا جاتا کہ کس طرح خون لگایا جائے؟ تو کہتے: جب عقیقے کا جانور ذبح کرنے لگو تو اس کے بالوں کا ایک گچھا لے کر اس کی رگوں پر رکھ دو، پھر وہ گچھا لڑکے کی چندیا پر رکھ دیا جائے، یہاں تک کہ خون دھاگے کی طرح اس کے سر سے بہنے لگے پھر اس کے بعد اس کا سر دھو دیا جائے اور سر مونڈ دیا جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «يدمى» ہمام کا وہم ہے، اصل میں «ويسمى» تھا جسے ہمام نے «يدمى» کر دیا، ابوداؤد کہتے ہیں: اس پر عمل نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2837]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأضاحي 23 (1522)، سنن النسائی/العقیقة 4 (4225)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3165)، (تحفة الأشراف: 4581)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العقیقة 2 (5472)، مسند احمد (5/7، 8، 12، 17، 18، 22)، سنن الدارمی/الأضاحي 9 (2012) (صحیح)» (لیکن «يدمى» کی جگہ «يسمى» صحیح ہے جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں «يسمى» ہی ہے)
وضاحت: ۱؎: بریدہ رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (۲۸۴۳) اس حدیث کے لئے ناسخ ہے، لہٰذا عقیقہ کا خون بچے کے سر پر نہیں لگایا جائے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ويدمى والمحفوظ ويسمى
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة : عنعن والحديث الآتي(الأصل:2838) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 102
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: لفظ «يسمى» لفظ «يدمى» سے زیادہ صحیح ہے، سلام بن ابی مطیع نے اسی طرح قتادہ، ایاس بن دغفل اور اشعث سے اور ان لوگوں نے حسن سے روایت کی ہے، اس میں «ويسمى» کا لفظ ہے، اور اسے اشعث نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس میں بھی «ويسمى» ہی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2838]
سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کی پیدائش کے ساتھ اس کا عقیقہ ہے تو اس کی جانب سے خون بہاؤ، اور اس سے تکلیف اور نجاست کو دور کرو“(یعنی سر کے بال مونڈو اور غسل دو)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2839]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کی طرف سے ایک ایک دنبہ کا عقیقہ کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2841]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6011)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/العقیقة 3 (4224) (صحیح) لکن في روایة النسائي:’’کبشین کبشین‘‘، وھوالأصح»
وضاحت: ۱؎: سنن نسائی میں «کبشین کبشین» یعنی دو دو دنبے کی روایت ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن في رواية النسائي كبشين كبشين وهو الأصح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4155)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ «عقوق»(ماں باپ کی نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا“ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند فرمایا، اور مکروہ جانا، اور فرمایا: ”جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی (عقیقہ) کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «فرع» کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ” «فرع» حق ہے اور یہ کہ تم اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اونٹ جوان ہو جائے، ایک برس کا یا دو برس کا، پھر اس کو بیواؤں محتاجوں کو دے دو، یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے دے دو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو (پیدا ہوتے ہی) کاٹ ڈالو کہ گوشت اس کا بالوں سے چپکا ہو (یعنی کم ہو) اور تم اپنا برتن اوندھا رکھو، (گوشت نہ ہو گا تو پکاؤ گے کہاں سے) اور اپنی اونٹنی کو بچے کی جدائی کا غم دو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2842]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/العقیقة 1 (4217)، (تحفة الأشراف: 19169، 8700)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/182، 183، 194) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (4156)
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچے کے سر میں لگاتا، پھر جب اسلام آیا تو ہم بکری ذبح کرتے اور بچے کا سر مونڈ کر زعفران لگاتے تھے (خون لگانا موقوف ہو گیا)۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2843]