الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الضَّحَايَا
کتاب: قربانی کے مسائل
21. باب فِي الْعَقِيقَةِ
21. باب: عقیقہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2836
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مِثْلَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا هُوَ الْحَدِيثُ وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَهْمٌ.
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عقیقے میں) لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہی دراصل حدیث ہے، اور سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۸۳۵) وہم ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الضَّحَايَا/حدیث: 2836]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2834)، (تحفة الأشراف: 18347) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی: عبید اللہ بن ابی یزید کے بعد سند میں «عن ابیہ» کا اضافہ سفیان کا وہم ہے، حماد کی روایت میں یہ اضافہ نہیں ہے اور یہی دیگر لوگوں کی روایتوں میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
انظر الحديث السابق (2835)

   جامع الترمذيشاتان عن الجارية واحدة
   جامع الترمذيشاتان عن الأنثى واحدة
   سنن أبي داودشاتان مكافئتان عن الجارية شاة
   سنن أبي داودعن الغلام شاتان عن الجارية شاة لا يضركم أذكرانا أو إناثا
   سنن أبي داودشاتان مثلان عن الجارية شاة
   سنن ابن ماجهشاتان متكافئتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرىفي الغلام شاتان مكافأتان في الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرىشاتان مكافأتان عن الجارية شاة
   سنن النسائى الصغرىعلى الغلام شاتان على الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   سنن النسائى الصغرىشاتان عن الجارية شاة
   بلوغ المرامشاتان مكافئتان وعن الجارية شاة
   مسندالحميديعن الغلام شاتان، وعن الجارية شاة لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا
   مسندالحميديفي العقيقة عن الغلام شاتان مكافأتان، وعن الجارية شاة
   مسندالحميديأقروا الطير على مكناتها

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2836 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2836  
فوائد ومسائل:
امام ابو داود کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سابقہ حدیث سفیان کی سند میں عبید اللہ بن ابی یزید کے بعد عن ابیہ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔
صحیح یہی سند ہے جس میں اضافہ نہیں ہے۔
(عون المعبود بذل المجهود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2836   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1169  
´عقیقہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، احمد اور چاروں نے ام کرز کعبیہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1169»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، حديث:1513، وابن حبان (الموارد)، حديث:1058، وحديث أم كرز: أخرجه أبوداود، الضحايا، حديث:2834، والترمذي، الأضاحي، حديث:1516، والنسائي، القيقة، حديث:4221، وابن ماجه، الذبائح، حديث:3162، وأحمد:6 /422 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
مذکورہ روایت میں بچے کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ذکر ہے جبکہ گزشتہ روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک جانور عقیقہ کے طور پر ذبح کیا۔
ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں بلکہ علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ افضل اور مستحب یہی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے‘ تاہم لڑکے کی طرف سے بھی ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث سے ثابت ہے۔
بنابریں اگر کسی کے پاس دو جانور نہ ہوں تو لڑکے کی طرف سے بھی عقیقے میں ایک جانور ذبح کرنا جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث «ام کُرز کعبیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنو خزاعہ قبیلے سے تھیں‘ اس لیے خزاعیہ کہلائیں۔
شرف صحابیت سے مشرف تھیں۔
ان سے کئی احادیث منقول ہیں۔
کرز کے کاف پر ضمہ اور را ساکن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1169   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4220  
´لڑکے کے عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عقیقہ کے لیے) لڑکے میں دو ہم عمر بکریاں اور لڑکی میں ایک بکری (کافی) ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب العقيقة/حدیث: 4220]
اردو حاشہ:
عقیقہ یا قربانی کے جانور میں نر یا مادہ کی تخصیص کی شرط نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4220   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4222  
´لڑکی کی طرف سے کتنی بکریاں ہوں؟`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکا ہونے پر دو بکریاں ہیں اور لڑکی پر ایک بکری، نر ہوں یا مادہ اس سے تم کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب العقيقة/حدیث: 4222]
اردو حاشہ:
فرماتے سنا یعنی اپنے سوال کے جواب کے علاوہ عقیقے کا مسئلہ فرماتے ہوئے سنا۔ مذکر ہوں یا مؤنث  لڑکے کی طرف سے مؤنث اور لڑکی کی طرف سے مذکریا ملے جلے جانور ذبح کیے جاسکتے ہیں۔ ثواب میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4222   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2834  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: (عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد نے «مكافئتان» کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2834]
فوائد ومسائل:

وہ جانور جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔
اسے عقیقہ کہتے ہیں۔
لغت میں ا س کے معنی ہیں۔
کاٹنا اور شق کرنا، یہ لفظ بچوں کے سر کے بالوں پر بھی بولا جاتا ہے۔
اور اسی مناسبت سے اس ذبیحہ کو عقیقہ کہتے ہیں۔
فقہی طور پر اس کا حکم سنت مؤکدہ کا ہے۔


(مکافئتان) کا تقاضا ہے۔
کہ دونوں جانوروں کی نوع بھی ایک ہو، یعنی دونوں بکریاں ہوں۔
یا بھیڑیں یا مینڈھے یہ نہیں کہ ایک بکری ہو اور دوسری بھیڑ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2834   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3162  
´عقیقہ کا بیان۔`
ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بچے یا بچی کی ولادت پر عقیقہ کرنا سنت ہے۔
یہ اولاد کی نعمت پر اللہ کے شکر کا اظہار ہے، تاہم یہ فرض یا واجب نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
'جس کے ہاں بچہ پیدا ہواگروہ اپنے بچے کا عقیقہ کرناچاہے تو کرلے۔ (موطا إمام مالك، العقيقة، ماجاء في العقيقة، حديث: 1 وصحيح سنن أبي داؤد للألباني، حديث: 2842)

(2) (مكافئتان)
كی تشریح میں مختلف اقوال ہیں:

(ا)
ہم عمر اور ہم جنس۔

(ب)
ذبح ہونے میں برابر، یعنی دونوں اکھٹی ذبح کی جائیں۔ (مثلاً یہ نہ ہو کہ ایک صبح کو ذبح کی جائے اور دوسری شام کو)

(ج)
قربانی کے جانور کے برابر۔
حافظ ابن حجر ؒنے دوسرے قول کواچھا قراردیا ہے۔ (فتح الباری: 9/ 733)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3162   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:349  
349- سیدہ ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو برابر کی بکریاں ذبح کی جائیں گی اور لڑکی کی طرف سے اک بکری ذبح کی جائے گی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:349]
فائدہ:
اس حدیث میں مسئلہ عقیقہ بیان ہوا ہے، اور بہت زیادہ مسلمان لاکھوں، کروڑوں پتی بھی اس واجبی حکم پر عمل نہیں کرتے۔ اس کی اہمیت و فرضیت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (جانور) ذبح کیا جائے گا، اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں گے، اور اس کا نام رکھا جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2838، سنن الترمذی: 1522، حسن صحیح سنن ابن ماجد: 3165)
اگر کسی میں ساتویں دن طاقت نہیں ہے تو جب اس کے پاس طاقت ہو تو وہ بعد میں عقیقہ کر لے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود نبوت ملنے کے بعد عقیقہ کیا تھا (الصحيحه للألباني: 6203)
اس حدیث کو امام ضیاء مقدسی نے صحیح کہا: ہے۔ (المختارہ: 54 / 2۔ 351 / 2، حدیث: 1833) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے «فالحديث قوى الاسناد» (پس یہ حدیث سند کے اعتبار سے مضبوط ہے) کہا ہے۔ (فتح الباری: 595/9) اور استاد محترم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لذاتہ کہا ہے۔ (مقالات: 206/5)
تنبیہ: بعض روایتوں میں عقیقہ کے متعلق چودہویں اور ا کیسویں دن کا ذکر ہے، لیکن وہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم راوی ضعیف ہے۔
امام ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں: اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جا سکے تو اس کے بعد جب بھی اس فرض کی ادائیگی کی استطاعت رکھے تو عقیقہ کر لے۔ (المحلی: 226 / 6)، اس بات سے ثابت ہوا کہ عقیقہ ساتویں دن کرنا چاہیے، اگر ساتویں دن گنجائش نہ ہو تو بعد میں کر لینا چاہیے۔
«مُكَافَأَتَانِ» سے مراد ہم عمر ہیں، جیسا کہ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ (سنن ابی داود: 2834) یاد رہے کہ قربانی کے جانور کی شرائط عقیقے کے جانور پر لگانا درست نہیں ہے، امام محمد عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں کسی صحيح یا ضعیف حدیث سے (قربانی والی) شرائط لگانا ثابت نہیں ہے۔ (تحفۃ الاحوذی: 99/5)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 349