ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2640]
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله»”نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ کی گواہی دینے، ہمارے قبلہ کا استقبال کرنے، ہمارا ذبیحہ کھانے، اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے نہ لگ جائیں، تو جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کے خون اور مال ہمارے اوپر حرام ہو گئے سوائے اس کے حق کے ساتھ اور ان کے وہ سارے حقوق ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر وہ سارے حقوق عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہوتے ہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2641]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 28 (392)، سنن الترمذی/الایمان 2 (2608)، سنن النسائی/تحریم الدم 1 (3972)، والإیمان 15 (5006)، (تحفة الأشراف: 706)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/199،224) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح خ نحوه دون قوله لهم ما ... إلا تعليقا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں“، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2642]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 789)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الصلاة 28 (393 تعلیقًا) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (2641)
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات ۱؎ کی طرف ایک سریہ میں بھیجا، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہو گیا، چنانچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو «لا إله إلا الله» کہنے لگا (اس کے باوجود) ہم نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ کیوں نہیں لیا کہ ۲؎ اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا ہے یا (تلوار کے ڈر سے) نہیں (بلکہ اسلام کے لیے)؟ قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات فرماتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش کہ میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2643]
وضاحت: ۱؎: جہینہ کے چند قبائل کا نام ہے۔ ۲؎: زبان سے کلمہ شہادت پڑھنے والے کا شمار مسلمانوں میں ہو گا، اس کے ساتھ دنیا میں وہی سلوک ہو گا جو کسی مسلم مومن کے ساتھ ہوتا ہے اس کے کلمہ پڑھنے کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، کیونکہ کلمہ کا تعلق ظاہر سے ہے نہ کہ باطن سے اور باطن کا علم صرف اللہ کو ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «أفلا شققت عن قلبه» کا یہی مفہوم ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6872) صحيح مسلم (96)
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر کافروں میں کسی شخص سے میری مڈبھیڑ ہو جائے اور وہ مجھ سے قتال کرے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اس کے بعد درخت کی آڑ میں چھپ جائے اور کہے: میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا، تو کیا میں اسے اس کلمہ کے کہنے کے بعد قتل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اسے قتل نہ کرو“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو، کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو قتل کرنے سے پہلے تمہارا جو مقام تھا وہ اس مقام میں آ جائے گا اور تم اس مقام میں پہنچ جاؤ گے جو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے اس کا تھا“۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2644]