ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہلاک ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ایک گردن آزاد کر سکتے ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، فرمایا: ”دو مہینے مسلسل روزے رکھنے کی طاقت ہے؟“ کہا: نہیں، فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟“، کہا: نہیں، فرمایا: ”بیٹھو“، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا تھیلا آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”انہیں صدقہ کر دو“، کہنے لگا: اللہ کے رسول! مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ ہم سے زیادہ محتاج کوئی گھرانہ ہے ہی نہیں، اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہو گئے اور فرمایا: ”اچھا تو انہیں ہی کھلا دو“۔ مسدد کی روایت میں ایک دوسری جگہ «ثناياه» کی جگہ «أنيابه» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2390]
اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں زہری نے یہ الفاظ زائد کہے کہ یہ (کھجوریں اپنے اہل و عیال کو ہی کھلا دینے کا حکم) اسی شخص کے ساتھ خاص تھا اگر اب کوئی اس گناہ کا ارتکاب کرے تو اسے کفارہ ادا کئے بغیر چارہ نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث بن سعد، اوزاعی، منصور بن معتمر اور عراک بن مالک نے ابن عیینہ کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے اور اوزاعی نے اس میں «واستغفر الله»”اور اللہ سے بخشش طلب کر“ کا اضافہ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2391]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 12275) (صحیح)» (لیکن زہری کے بات خلاف اصل ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6710) صحيح مسلم (1111)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو مہینے کا مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا، وہ شخص کہنے لگا کہ میں تو (ان میں سے) کچھ نہیں پاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں لے لو اور صدقہ کر دو“، وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو کوئی ہے ہی نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت نظر آنے لگے اور اس سے فرمایا: ”تم ہی اسے کھا جاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے زہری سے مالک کی روایت کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے روزہ توڑ دیا، اس میں ہے «أو تعتق رقبة أو تصوم شهرين أو تطعم ستين مسكينا»۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2392]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تھا، آگے اوپر والی حدیث کا ذکر ہے اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا تھیلا آیا جس میں پندرہ صاع کے بقدر کھجوریں تھیں، اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اور تمہارے گھر والے کھاؤ، اور ایک دن کا روزہ رکھ لو، اور اللہ سے بخشش طلب کرو“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2393]
عباد بن عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص رمضان میں مسجد کے اندر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں تو بھسم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کر دو“، وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ میرے اندر استطاعت ہے، فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“، وہ بیٹھ گیا، اتنے میں ایک شخص غلے سے لدا ہوا گدھا ہانک کر لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی بھسم ہونے والا کہاں ہے؟“ وہ شخص کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے صدقہ کر دو“، بولا: اللہ کے رسول! کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! ہم بھوکے ہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، فرمایا: ”اسے تم ہی کھا لو“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2394]
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی قصہ مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا تھیلا لایا گیا جس میں بیس صاع کھجوریں تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2395]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16176) (منكر)» (مقدار کی بات منکر ہے جو مؤلف کے سوا کسی کے یہاں نہیں ہے) نوٹ: سند ایک ہے، لیکن اگلی حدیث کے حکم میں اختلاف ہے