عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ”ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما»”تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله»۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1901]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحج 79 (1643)، والعمرة10 (1790)، وتفسیرالبقرة 21(4495)، وتفسیر النجم 3 (4861)، سنن النسائی/الحج 168 (2971)، (تحفة الأشراف: 16820، 17151)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 43 (1277)، سنن الترمذی/تفسیر سورة البقرة (2969)، سنن ابن ماجہ/المناسک 43 (2986)، موطا امام مالک/الحج 42 (129)، مسند احمد (6/144، 162، 227) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”مناة قديد“: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات کا نام ہے۔ ۲؎: بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں (سورة البقرة: ۱۵۸)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1790) صحيح مسلم (1277)
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لیے ہوئے تھے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1902]
اس سند سے بھی عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ صفا و مروہ آئے اور ان کے درمیان سات بار سعی کی، پھر اپنا سر منڈایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1903]
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1904]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحج 39 (864)، سنن النسائی/الحج 174 (2979)، سنن ابن ماجہ/المناسک 43 (2988)، (تحفة الأشراف: 7373، 7379)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/53) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن زھير بن معاوية سمع من عطاء بن السائب قبل اختلاطه وكثير بن جمھان حسن الحديث وثقه الجمھور