عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1464]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 18 (2914)، ن الکبری / فضائل القرآن (8056)، (تحفة الأشراف:8627)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/192) (حسن صحیح)»
وضاحت: وضاحت: قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۲؎: یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کرو گے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤ گے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤ گے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2134)
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مد کو کھینچتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1465]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 29 (5045)، سنن النسائی/الافتتاح 82 (1015)، سنن الترمذی/الشمائل (315)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 179 (1353)، (تحفة الأشراف: 1145)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 127، 131، 192، 198، 289) (صحیح)»
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت اور نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: تم کہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کہاں؟ آپ نماز پڑھتے اور جتنی دیر پڑھتے اتنا ہی سوتے، پھر جتنا سو لیتے اتنی دیر نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر نماز پڑھتے اتنی دیر سوتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی، پھر ام سلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت بیان کی تو دیکھا کہ وہ ایک ایک حرف الگ الگ پڑھ رہی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1466]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 23 (2923)، سنن النسائی/الافتتاح 83(1023)، (تحفة الأشراف:18226)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/294، 297، 300، 308) (ضعیف)» (اس کے راوی یعلی لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1210، 2204) أخرجه الترمذي (2923 وسنده حسن) يعلي بن مملك: حسن الحديث و ثقه الترمذي و ابن حبان
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المغازي 48 (4281)، صحیح مسلم/المسافرین 35 (794)، ت الشمائل (391)، ن الکبری/فضائل القرآن (8055)، (تحفة الأشراف:9666)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/85) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7540) صحيح مسلم (794)
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1468]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الافتتاح 83 (1016)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 176 (1342)، (تحفة الأشراف:1775)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 52، تعلیقاً، مسند احمد (4/283، 285، 296، 304)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 34 (3544) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں «زينوا أصواتكم بالقرآن» کے الفاظ ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (2199) أخرجه النسائي (1016 وسنده صحيح) ورواه ابن ماجه (1342 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (1551 وسنده حسن)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن خوش الحانی سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1469]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف:3905، 18690)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/172، 175، 179)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 34 (3531) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام خطابی نے اس کے تین معانی بیان کئے ہیں: ایک یہی ترتیل اور حسن آواز، دوسرے: قرآن کے ذریعہ دیگر کتب سے استغناء (دیکھئے نمبر: ۱۴۷۲)، تیسرے: عربوں میں رائج سواری پر حدی خوانی کے بدلے قرآن کی تلاوت۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه الحميدي (76 وسنده حسن، 77) وانظر الحديث الآتي (1470)
عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں ہمارے پاس سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو ہم ان کے پیچھے ہو لیے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہو گئے تو ہم بھی داخل ہو گئے تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے۔ بوسیدہ سا گھر ہے اور وہ بھی خستہ حال ہے، میں نے سنا: وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: ”جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ عبدالجبار کہتے ہیں: میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا: اے ابو محمد! اگر کسی کی آواز اچھی نہ ہو تو کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا: جہاں تک ہو سکے اسے اچھی بنائے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1471]
محمد بن سلیمان انباری کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں وکیع اور ابن عیینہ نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ (دیگر کتب یا ادیان سے) بے نیاز ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1472]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1473]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 19 (5024)، والتوحید 32 (7482)، 52 (7544)، صحیح مسلم/المسافرین 34 (792)، سنن النسائی/الافتتاح83 (1018)، (تحفة الأشراف:14997)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/271، 285، 450)، سنن الدارمی/الصلاة 171 (1529)، وفضائل القرآن 33 (3540) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7544) صحيح مسلم (792)