عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں ہمارے پاس سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو ہم ان کے پیچھے ہو لیے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہو گئے تو ہم بھی داخل ہو گئے تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے۔ بوسیدہ سا گھر ہے اور وہ بھی خستہ حال ہے، میں نے سنا: وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: ”جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ عبدالجبار کہتے ہیں: میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا: اے ابو محمد! اگر کسی کی آواز اچھی نہ ہو تو کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا: جہاں تک ہو سکے اسے اچھی بنائے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1471]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1471
1471. اردو حاشیہ: جناب ابن ابی ملیکہ نے حدیث کے الفاظ کو خوش الحانی پر محمول کیا ہے۔ جبکہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظاہر حال ذاتی اور گھر بار کا یہ تھا۔ کہ انہوں نے اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں رکھی تھی۔ غالباً انہوں نے الفاظ حدیث کے معنی استغنا مراد لے رکھے تھے۔ واللہ اعلم۔ [بذل المجهود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1471