امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ میں نہ ٹھہرو، اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر میں نہ ٹھہرو۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 872]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم 1218، و ابن ماجه: 3012، 3048، و أبو داود: 1907، و النسائي: 3018، 3048، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 166»
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ، اور مزدلفہ سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 873]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے: «﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ [البقرة: 197] »”نہ رفث ہے، نہ فسق ہے، نہ جھگڑا ہے حج میں۔“ تو «رفث» کے معنی جماع کے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے۔ فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے: «﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ﴾ [البقرة: 187] »”حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے۔“ یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اور فسق سے مراد ذبح کرنا ہے جانوروں کا واسطے بتوں کے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ﴾ [الأنعام: 145] »”یا فسق یہ ہے کہ پکارا جانور پر سوا اللہ کے اور کسی کا نام۔“ اور جھگڑا یہ ہے کہ قریش مزدلفہ میں قزح کے پاس ٹھہر تے تھے، اور باقی سب عرفات میں اترتے تھے، تو دونوں فرقے آپس میں لڑتے تھے، جھگڑتے تھے، یہ کہتے تھے: ہم سیدھی راہ اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم صحیح طریقے پر ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ، فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ﴾ [الحج: 67] » یعنی ”ہم نے ہر گروہ کے لیے ایک طریقہ کر دیا وہ اس پر چلتے ہیں، تو نہ جھگڑیں تجھ سے دین میں، اور بلا تو اپنے پروردگار کی طرف، بے شک تو سیدھی راہ پر ہے۔“ تو حج میں جھگڑنے کے یہی معنی ہیں۔ (واللہ اعلم)، اور میں نے سنا ہے یہ اہلِ علم سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْحَجِّ/حدیث: 873B1]