الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
1135. حَدِيثُ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 23970
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّهَّاسُ بْنُ قَهْمٍ أَبُو الْخَطَّابِ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ الشَّامِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ : يَا طَاعُونُ، خُذْنِي إِلَيْكَ، قَالَ: فَقَالُوا أَلَيْسَ قَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا عَمَّرَ الْمُسْلِمُ كَانَ خَيْرًا لَهُ" ، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي أَخَافُ سِتًّا إِمَارَةَ السُّفَهَاءِ، وَبَيْعَ الْحُكْمِ، وَكَثْرَةَ الشَّرْطِ، وَقَطِيعَةَ الرَّحِمِ، وَنَشْئًا يَنْشَئُونَ يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيرَ، وَسَفْكَ الدَّمِ.
شداد ابو عمار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے طاعون! مجھے اپنی گرفت میں لے لے لوگوں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان کو جتنی بھی عمر ملے وہ اس کے حق میں بہتر ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں لیکن مجھے چھ چیزوں کا خوف ہے بیوفوقوں کی حکومت، انصاف کا فروخت ہونا، کثرت سے شرطیں لگانا قطع رحمی، ایسی نسل کی افزائش جو قرآن کو گانے بجانے کا آلہ بنالے گا، خون ریزی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23970]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف النهاس بن قهم، ولانقطاعه، فإن شدادا لم يسمع من عوف
حدیث نمبر: 23971
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَدْخُلُ كُلِّي أَوْ بَعْضِي؟ قَالَ:" ادْخُلْ كُلُّكَ"، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ وُضُوءًا مَكِيثًا، فَقَالَ لِي: يَا عَوْفُ بْنَ مَالِكٍ، " أَعْدِدْ سِتًّا قَبْلَ السَّاعَةِ: مَوْتُ نَبِيِّكُمْ، خُذْ إِحْدَى، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مَوْتٌ يَأْخُذُكُمْ تُقْعَصُونَ فِيهِ كَمَا تُقْعَصُ الْغَنَمُ، ثُمَّ تَظْهَرُ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرُ الْمَالُ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَسْخَطَهَا، ثُمَّ يَأْتِيكُمْ بَنُو الْأَصْفَرِ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور عرض کیا کہ پورا اندر آجاؤں یا آدھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پورے ہی اندرآجاؤ، چناچہ میں اندر چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عمدگی کے ساتھ وضو فرما رہے تھے مجھ سے فرمانے لگے اے عوف بن مالک! قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرلینا سب سے پہلے تمہارے نبی کا انتقال ہوجائے پھر بیت المقدس فتح ہوجائے گا پھر بکریوں میں موت کی وباء جس طرح پھیلتی ہے تم میں بھی اسی طرح پھیل جائے گی پھر فتنوں کا ظہور ہوگا اور مال و دولت اتنا بڑھ جائے گا کہ اگر کسی آدمی کو سو دینار بھی دیئے جائیں گے تو وہ پھر بھی ناراض رہے گا پھر اسی جھنڈوں کے نیجے جن میں سے ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار کا لشکر ہوگا رومی لوگ تم سے لڑنے کے لئے جائیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23971]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3176، وهذا إسناد ضعيف لجهالة هشام بن يوسف، وقد توبع ، ورواية هشام عن عوف مرسلة
حدیث نمبر: 23972
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، قَالَ: دَخَلَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ هُوَ وَذُو الْكَلَاعِ مَسْجِدَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ لَهُ عَوْفٌ: عِنْدَكَ ابْنُ عَمِّكَ، فَقَالَ ذُو الْكَلَاعِ: أَمَا إِنَّهُ مِنْ خَيْرِ أَوْ مِنْ أَصْلَحِ النَّاسِ، فَقَالَ عَوْفٌ : أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُتَكَلِّفٌ" .
ایک مرتبہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اور ذوالکلاع مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کے پاس تو آپ کا بھتیجا (کعب احبار) ہے ذوالکلاع نے کہا کہ وہ تمام لوگوں میں سب سے بہترین آدمی ہے حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23972]
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده
حدیث نمبر: 23973
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّهَّاسُ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: يَا طَاعُونُ، خُذْنِي إِلَيْكَ، قَالُوا: لِمَ تَقُولُ هَذَا؟! أَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا يَزِيدُهُ طُولُ الْعُمُرِ إِلَّا خَيْرًا" ، قَالَ: بَلَى، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ وَكِيعٍ.
شداد ابو عمار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے طاعون! مجھے اپنی گرفت میں لے لے لوگوں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان کو جتنی بھی عمر ملے وہ اس کے حق میں بہتر ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23973]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف النهاس ابن قهم، ولانقطاعه، شداد لم يسمع من عوف
حدیث نمبر: 23974
حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَزْهَرَ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ ذِي الْكَلَاعِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " الْقُصَّاصُ ثَلَاثَةٌ: أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23974]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 23975
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ نُفَيْرٍ ، عَنْ عَوْفٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى مَيِّتٍ، فَفَهِمْتُ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَيْهِ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجَةً خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَنَجِّهِ مِنَ النَّارِ، وَقِهِ عَذَابَ الْقَبْرِ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی میت کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا سمجھ میں آئی اے اللہ! اسے معاف فرما اس پر رحم فرما اسے عافیت عطا فرما اور اس سے درگذر فرما اس کا ٹھکانہ باعزت جگہ بنا اس کے داخل ہونے کی جگہ (قبر) کو کشادہ فرما اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو دے اسے گناہوں سے ایسے صاف فرما دے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کردیتا ہے اس کے گھر سے بہترین گھر اس کے اہل خانہ سے بہترین اہل خانہ اور اس کی بیوی سے بہترین بیوی عطا فرما اسے جنت میں داخل فرما جہنم سے محفوظ فرما اور عذاب قبر سے نجات عطا فرما۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23975]
حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 963
حدیث نمبر: 23976
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي عَرِيبٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الْعَصَا وَفِي الْمَسْجِدِ أَقْنَاءٌ مُعَلَّقَةٌ، فِيهَا قِنْوٌ فِيهِ حَشَفٌ، فَغَمَزَ الْقِنْوَ بِالْعَصَا الَّتِي فِي يَدِهِ، قَالَ: " لَوْ شَاءَ رَبُّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ، تَصَدَّقَ بِأَطْيَبَ مِنْهَا، إِنَّ رَبَّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ لَيَأْكُلُ الْحَشَفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، لَتَدَعُنَّهَا أَرْبَعِينَ عَامًا لِلْعَوَافِي"، قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" يَعْنِي الطَّيْرَ وَالسِّبَاعَ" ، قَالَ: وَكُنَّا نَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَلَّذِي تُسَمِّيهِ الْعَجَمُ، هِيَ الْكَرَاكِيُّ.
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں عصا تھا مسجد میں اس وقت کچھ خوشے لٹکے ہوئے تھے جن میں سے ایک خوشے میں گدر کھجوریں بھی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دست مبارک کے عصا سے ہلایا اور فرمایا اگر یہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے زیادہ صدقہ کرسکتا تھا یہ صدقہ کرنے والا قیامت کے دن گدر کھجوریں کھائے گا پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا واللہ اے اہل مدینہ! تم چالیس سال تک اس شہر مدینہ کو پرندوں اور درندوں کے لئے چھوڑے رکھو گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23976]
حكم دارالسلام: اسناده حسن
حدیث نمبر: 23977
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْمَلِيحِ الْهُذَلِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَارَ بِهِمْ يَوْمَهُمْ أَجْمَعَ، لَا يَحُلُّ لَهُمْ عُقْدَةً، وَلَيْلَتَهُ جَمْعَاءَ لَا يَحُلُّ عُقْدَةً، إِلَّا لِصَلَاةٍ، حَتَّى نَزَلُوا أَوْسَطَ اللَّيْلِ، قَالَ: فَرَقَبَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَعَ رَحْلَهُ، قَالَ: فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَنَظَرْتُ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا إِلَّا نَائِمًا، وَلَا بَعِيرًا إِلَّا وَاضِعًا جِرَانَهُ نَائِمًا، قَالَ: فَتَطَاوَلْتُ فَنَظَرْتُ حَيْثُ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحْلَهُ، فَلَمْ أَرَهُ فِي مَكَانِهِ، فَخَرَجْتُ أَتَخَطَّى الرِّحَالَ حَتَّى خَرَجْتُ إِلَى النَّاسِ، ثُمَّ مَضَيْتُ عَلَى وَجْهِي فِي سَوَادِ اللَّيْلِ، فَسَمِعْتُ جَرَسًا فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا أَنَا بِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَالْأَشْعَرِيِّ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمَا، فَقُلْتُ: أَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِذَا هَزِيزٌ كَهَزِيزِ الرَّحَا، فَقُلْتُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الصَّوْتِ، قَالَا: اقْعُدْ اسْكُتْ فَمَضَى قَلِيلًا فَأَقْبَلَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْنَا، فَقُمْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَزِعْنَا إِذْ لَمْ نَرَكَ، وَاتَّبَعْنَا أَثَرَكَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ"، فَقُلْنَا: نُذَكِّرُكَ اللَّهَ وَالصُّحْبَةَ إِلَّا جَعَلْتَنَا مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِكَ، قَالَ:" أَنْتُمْ مِنْهُمْ"، ثُمَّ مَضَيْنَا فَيَجِيءُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، فَيُخْبِرُهُمْ بِالَّذِي أَخْبَرَنَا بِهِ فَيُذَكِّرُونَهُ اللَّهَ وَالصُّحْبَةَ إِلَّا جَعَلَهُمْ مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِهِ، فَيَقُولُ:" فَإِنَّكُمْ مِنْهُمْ" حَتَّى انْتَهَى النَّاسُ فَأَضَبُّوا عَلَيْهِ، وَقَالُوا: اجْعَلْنَا مِنْهُمْ، قَالَ:" فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنَّهَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے قریب ہوتے تھے ایک مرتبہ ہم نے کسی جگہ پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نماز کے لئے کھڑے ہوئے ہم آس پاس سو رہے تھے اچانک میں رات کو اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نظر آئے میں نے ان کے پاس پہنچ کر ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو اچانک ہم نے ایسی آواز سنی جو چکی کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے اور اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رک گئے اس آواز کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے۔ قریب آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا کہ جب ہماری آنکھ کھلی اور ہمیں آپ اپنی جگہ نظر نہ آئے تو ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے، اس لئے ہم آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکلے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور اس نے مجھے ان دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل ہوجائے یا مجھے شفاعت کا اختیار مل جائے تو میں نے شفاعت والے پہلو کو ترجیح دے لی، ہم دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ سے اسلام اور حق صحابیت کے واسطے سے درخواست کرتے ہیں کہ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ آپ کی شفاعت میں ہمیں بھی شامل کر دے، دیگر حضرات بھی آگئے اور وہ بھی یہی درخواست کرنے لگے اور ان کی تعداد بڑھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23977]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، من أجل محمد بن أبى المليح
حدیث نمبر: 23978
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، وَعَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، قَالَ: أخبرنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ لَقِيطٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ هِدْمٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: غَزَوْنَا وَعَلَيْنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَأَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ، فَمَرُّوا عَلَى قَوْمٍ قَدْ نَحَرُوا جَزُورًا، فَقُلْتُ: أُعَالِجُهَا لَكُمْ عَلَى أَنْ تُطْعِمُونِي مِنْهَا شَيْئًا، وَقَالَ: إِبْرَاهِيمُ: فَتُطْعِمُونِي مِنْهَا؟ فَعَالَجْتُهَا ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِي أَعْطَوْنِي، فَأَتَيْتُ بِهِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلهَ، ثُمَّ إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَاكَ فِي فَتْحِ مَكَّةَ، فَقَالَ: " أَنْتَ صَاحِبُ الْجَزُورِ؟"، فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ يَزِدْنِي عَلَى ذَلِكَ.
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم کسی غزوے پر روانہ ہوئے ہمارے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے ہمیں بھوک نے ستایا اسی دوران ایک قوم پر گذر ہوا جنہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا میں نے لوگوں سے کہا کہ میں تمہیں اس کا گوشت لا کردیتا ہوں شرط یہ ہے کہ تم مجھے بھی اس میں سے کھلاؤ گے چناچہ میں نے اسے اٹھا لیا پھر انہوں نے مجھے جو حصہ دیا تھا اسے لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا لیکن انہوں نے اسے کھانے سے انکار کردیا پھر میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گیا لیکن انہوں نے بھی وہی فرمایا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا اور اسے کھانے سے انکار کردیا پھر فتح مکہ کے موقع پر مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اونٹ والے تم ہی ہو؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں فرمایا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23978]
حكم دارالسلام: إسناده جيد
حدیث نمبر: 23979
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرُّقِّيُّ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَبُوكَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ وَهُوَ فِي فُسْطَاطٍ أَوْ قَالَ: قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُ، ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ، فَقُلْتُ: أَدْخُلُ؟ فَقَالَ:" ادْخُلْ"، قُلْتُ: كُلِّي؟ قَالَ:" كُلُّكَ"، قَالَ: فَدَخَلْتُ وَإِذَا هُوَ يَتَوَضَّأُ وُضُوءًا مَكِيثًا .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں سحری کے وقت داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور عرض کیا کہ پورا اندر آجاؤں یا آدھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پورے ہی اندر آجاؤ چناچہ میں اندر چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عمدگی کے ساتھ وضو فرما رہے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23979]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3176، وهذا إسناد جيد
حدیث نمبر: 23980
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْكِنْدِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ حُمَيْدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قُمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَأَ فَاسْتَاكَ ثُمَّ تَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، وَقُمْتُ مَعَهُ، فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ الْبَقَرَةَ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ يَتَعَوَّذُ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا، بِقَدْرِ قِيَامِهِ، يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: " سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ، وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ"، ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ، ثُمَّ سُورَةً، فَفَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسواک کی پھر وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت بقرہ شروع کردی اور رحمت کی جس آیت پر گذرتے وہاں رک کر دعا مانگتے اور عذاب کی جس آیت پر گذرتے تو وہاں رک کر اس سے پناہ مانگتے تھے پھر قیام کے بقدر رکوع کیا اور رکوع میں " سبحان ذی الجبروت والملکوت والکبریاء والعظمۃ " کہتے رہے پھر دوسری رکعت میں سورت آل عمران پڑھی اور اس میں بھی اسی طرح کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23980]
حكم دارالسلام: إسناده قوي
حدیث نمبر: 23981
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي زُرَيْقٌ مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ ، وَكَانَ ابْنَ عَمِّ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ مَنْ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" لَا مَا أَقَامُوا لَكُمْ الصَّلَاةَ، أَلَا وَمَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ أَمِيرٌ وَالٍ، وَالٍفَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيُنْكِرْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تمہارے حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرتے ہو گے اور وہ تم سے محبت کرتے ہوں گے تم ان کے لئے دعائیں کرتے ہوگے اور وہ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہوں گے اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم نفرت کرتے ہوگے اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوگے تم ان پر لعنت کرتے ہوگے اور وہ تم پر لعنت کرتے ہوں گے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم ایسے حکمرانوں کو باہر نکال کر پھینک نہ دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پر قائم رہیں البتہ جس پر حکمران کوئی گورنر مقرر کر دے اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام کرتے ہوئے دیکھے تو اس نافرمانی پر نکیر کرے لیکن اس کی اطاعت سے اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23981]
حكم دارالسلام: إسناده جيد، م: 1855
حدیث نمبر: 23982
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " الْفَقْرَ تَخَافُونَ أَوْ الْعَوَزَ أَوَتُهِمُّكُمْ الدُّنْيَا؟ فَإِنَّ اللَّهَ فَاتِحٌ لَكُمْ أَرْضَ فَارِسَ وَالرُّومِ، وَتُصَبُّ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا صَبًّا، حَتَّى لَا يُزِيغُكُمْ بَعْدِي إِنْ أَزَاغَكُمْ إِلَّا هِيَ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ فقروفاقہ یا تنگدستی سے ڈرتے ہو کیا تم دنیا کو اس درجہ اہمیت دیتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سر زمین فارس و روم کو فتح کروا دے گا اور تم پر دنیا انڈیل دی جائے گی حتیٰ کہ تمہیں میرے بعد کوئی چیز ٹیڑھا نہ کرسکے گی اگر کوئی چیز ٹیڑھا کرے گی تو وہ دنیا ہی ہوگی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23982]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية
حدیث نمبر: 23983
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ سَيْفٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَقَالَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ لَمَّا أَدْبَرَ: حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ"، فَقَالَ:" مَا قُلْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ: حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَلُومُ عَلَى الْعَجْزِ، وَلَكِنْ عَلَيْكَ بِالْكَيْسِ، فَإِذَا غَلَبَكَ أَمْرٌ، فَقُلْ: حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ فرمایا وہ فیصلہ جس کے خلاف ہوا اس نے واپس جاتے ہوئے کہا " حسبی اللہ ونعم الوکیل " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آدمی کو واپس میرے پاس بلا کر لاؤ اور اس سے پوچھا کہ تم نے ابھی کیا کہا تھا اس نے کہا کہ میں نے " حسبی اللہ ونعم الوکیل " کہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ بیوقوفی پر ملامت کرتا ہے تم عقلمندی سے کام کیا کرو پھر بھی اگر مغلوب ہوجاؤ تو اس وقت " حسبی اللہ و نعم الوکیل " کہا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23983]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بقية ، وجهالة سيف
حدیث نمبر: 23984
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى دَخَلْنَا كَنِيسَةَ الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عِيدٍ لَهُمْ، فَكَرِهُوا دُخُولَنَا عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ، " أَرُونِي اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا يَشْهَدُونَ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يُحْبِطْ اللَّهُ عَنْ كُلِّ يَهُودِيٍّ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ الْغَضَبَ الَّذِي غَضِبَ عَلَيْهِ"، قَالَ: فَأَسْكَتُوا مَا أَجَابَهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِمْ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ ثَلَّثَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَقَالَ:" أَبَيْتُمْ! فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَنَا الْحَاشِرُ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَأَنَا النَّبِيُّ الْمُصْطَفَى، آمَنْتُمْ أَوْ كَذَّبْتُمْ"، ثُمَّ انْصَرَفَ وَأَنَا مَعَهُ، حَتَّى إِذَا كِدْنَا أَنْ نَخْرُجَ نَادَى رَجُلٌ مِنْ خَلْفِنَا كَمَا أَنْتَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ، فَقَالَ ذَلِكَ الرَّجُلُ: أَيَّ رَجُلٍ تَعْلَمُونَ فِيكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ؟ قَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ فِينَا رَجُلٌ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ مِنْكَ، وَلَا أَفْقَهُ مِنْكَ، وَلَا مِنْ أَبِيكَ قَبْلَكَ، وَلَا مِنْ جَدِّكَ قَبْلَ أَبِيكَ، قَالَ: فَإِنِّي أَشْهَدُ لَهُ بِاللَّهِ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ الَّذِي تَجِدُونَهُ فِي التَّوْرَاةِ، قَالُوا: كَذَبْتَ، ثُمَّ رَدُّوا عَلَيْهِ قَوْلَهُ، وَقَالُوا فِيهِ شَرًّا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبْتُمْ، لَنْ يُقْبَلَ قَوْلُكُمْ، أَمَّا آنِفًا فَتُثْنُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا أَثْنَيْتُمْ، وَلَمَّا آمَنَ كَذَّبْتُمُوهُ وَقُلْتُمْ، فِيهِ مَا قُلْتُمْ، فَلَنْ يُقْبَلَ قَوْلُكُمْ"، قَالَ: فَخَرَجْنَا وَنَحْنُ ثَلَاثَةٌ، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ سورة الأحقاف آية 10 .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے میں بھی ہمراہ تھا یہ یہودیوں کی عید کا دن تھا ہم لوگ چلتے چلتے مدینہ میں ان کے ایک گرجا گھر میں پہنچے انہوں نے ہمارے وہاں آنے کو اچھا نہیں سمجھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے گروہ یہود! تم مجھے اپنے بارہ آدمی ایسے دکھا دو جو اس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں آسمان کی اس چھت تلے جتنے یہودی رہتے ہیں اللہ سب سے اپنا وہ غضب دور فرما دے گا جو ان پر مسلط ہے لیکن وہ لوگ خاموش رہے اور ان میں سے کسی نے بھی اس کا جواب نہ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ان کے سامنے دہرائی تاہم کس نے بھی جواب نہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ انکار کرتے ہو حالانکہ اللہ کی قسم! میں ہی حاشر ہوں میں ہی عاقب ہوں، میں ہی نبی مصطفیٰ ہوں خواہ تم ایمان لاؤ یا تکذیب کرو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چل پڑے میں بھی ہمراہ تھا ہم اس کنیسے سے نکلنے ہی والے تھے کہ پیچھے سے ایک آدمی نے پکار کر کہا اے محمد! رکیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اس شخص نے یہودیوں سے مخاطب ہو کر کہا اے گروہ یہود! تم مجھے اپنے درمیان کس مرتبہ کا آدمی سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا بخدا! ہم لوگ اپنے درمیان آپ سے بڑھ کر کسی کو کتاب اللہ کا عالم اور فقیہہ نہیں سمجھتے اسی طرح آپ سے پہلے آپ کے آباؤ و اجدا کے متعلق بھی ہمارا یہی خیال ہے اس میں کہا کہ پھر میں اللہ کو سامنے رکھ کر گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم تورات میں پاتے ہو انہوں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو پھر اس کی مذمت بیان کرنا شروع کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ بول رہے ہو، تمہاری بات کسی صورت قبول نہیں کی جاسکتی ابھی تو تم نے اس کی خوب تعریف کی ہے اور جب یہ ایمان لے آیا تو تم اس کی تکذیب کرنے لگے اور اس کے متعلق نازیبا باتیں کہنے لگے لہٰذا تمہاری بات کسی صورت قبول نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا اب ہم وہاں سے نکلے تو تین آدمی ہوگئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور اس موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی " اے حبیب! آپ فرما دیجئے یہ بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہو تم اس کا انکار کرتے رہو اور بنی اسرائیل ہی میں ایک آدمی اس کی گواہی دے اور ایمان لے آئے تو تم تکبر کرتے ہو بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ " [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23984]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23985
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" عَوْفٌ؟": فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" ادْخُلْ"، قَالَ: قُلْتُ: كُلِّي أَوْ بَعْضِي؟ قَالَ:" بَلْ كُلُّكَ"، قَالَ: " اعْدُدْ يا عوف سِتًّا بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ: أَوَّلُهُنَّ مَوْتِي"، قَالَ: فَاسْتَبْكَيْتُ حَتَّى جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْكِتُنِي، قَالَ: قُلْتُ: إِحْدَى" وَالثَّانِيَةُ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قُلْتُ: اثْنَيْنِ" وَالثَّالِثَةُ مُوتَانٌ يَكُونُ فِي أُمَّتِي يَأْخُذُهُمْ مِثْلَ قُعَاصِ الْغَنَمِ، قُلْ: ثَلَاثًا" وَالرَّابِعَةُ فِتْنَةٌ تَكُونُ فِي أُمَّتِي وَعَظَّمَهَا، قُلْ: أَرْبَعًا، وَالْخَامِسَةُ يَفِيضُ الْمَالُ فِيكُمْ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُعْطَى الْمِائَةَ دِينَارٍ فَيَتَسَخَّطُهَا، قُلْ: خَمْسًا، وَالسَّادِسَةُ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَسِيرُونَ إِلَيْكُمْ عَلَى ثَمَانِينَ غَايَةً"، قُلْتُ: وَمَا الْغَايَةُ؟ قَالَ:" الرَّايَةُ، تَحْتَ كُلِّ رَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا، فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ فِي أَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: الْغُوطَةُ فِي مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور عرض کیا کہ پورا اندر آجاؤں یا آدھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پورے ہی اندر آجاؤ، چناچہ میں اندر چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عمدگی کے ساتھ وضو فرما رہے تھے مجھ سے فرمانے لگے اے عوف بن مالک! قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرلینا سب سے پہلے تمہارے نبی کا انتقال ہوجائے گا پھر بیت المقدس فتح ہوجائے گا پھر بکریوں میں موت کی وباء جس طرح پھیلتی ہے تم میں بھی اسی طرح پھیل جائے گی پھر فتنوں کا ظہور ہوگا اور مال و دولت اتنا بڑھ جائے گا کہ اگر کسی آدمی کو سو دینار بھی دیئے جائیں گے تو وہ پھر بھی ناراض رہے گا پھر اسی جھنڈوں کے نیجے جن میں سے ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار کا لشکر ہوگا رومی لوگ تم سے لڑنے کے لئے آجائیں گے اور مسلمانوں کا مرکز اس زمانے دمشق کے شہر " غوطہ " میں ہوگا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23985]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3176
حدیث نمبر: 23986
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ فَيْءٌ قَسَمَهُ مِنْ يَوْمِهِ، فَأَعْطَى الْآهِلَ حَظَّيْنِ، وَأَعْطَى الْعَزَبَ حَظًّا وَاحِدًا، فَدُعِينَا، وَكُنْتُ أُدْعَى قَبْلَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، فَدُعِيتُ فَأَعْطَانِي حَظَّيْنِ، وَكَانَ لِي أَهْلٌ، ثُمَّ دَعَا بِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُعْطِيَ حَظًّا وَاحِدًا، فَبَقِيَتْ قِطْعَةُ سِلْسِلَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُهَا بِطَرَفِ عَصَاهُ فَتسقُط، ثُمَّ رَفَعَهَا وَهُوَ يَقُولُ: " كَيْفَ أَنْتُمْ يَوْمَ يَكْثُرُ لَكُمْ مِنْ هَذَا!!!" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کہیں سے مال غنیمت آتا تھا تو اسے اسی دن تقسیم فرما دیتے تھے شادی شدہ کو دو حصے دیتے تھے اور کنوارے کو ایک حصے کسی قسم کے ایک موقع پر ہمیں بلایا گیا مجھے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پہلے بلایا جاتا تھا چناچہ اس دن بھی مجھے بلایا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے دے دیئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا اس کے بعد حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں ایک حصہ عطا فرمایا آخر میں سونے کی ایک چین بچ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی لاٹھی کی نوک سے اٹھاتے وہ گر جاتی تھی پھر اٹھاتے تھے اور فرماتے جا رہے تھے کہ تمہارا اس وقت کیا عالم ہوگا جس دن تمہارے پاس ان چیزوں کی کثرت ہوگئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23986]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23987
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَةً إِلَى طَرَفِ الشَّامِ، فَأُمِّرَ عَلَيْنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَانْضَمَّ إِلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَمْدَادِ حِمْيَرَ فَأَوَى إِلَى رَحْلِنَا، لَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ إِلَّا سَيْفٌ لَيْسَ مَعَهُ سِلَاحٌ غَيْرَهُ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا، فَلَمْ يَزَلْ يَحْتَلْ حَتَّى أَخَذَ مِنْ جِلْدِهِ كَهَيْئَةِ الْمِجَنِّ، حَتَّى بَسَطَهُ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ وَقَدَ عَلَيْهِ حَتَّى جَفَّ، فَجَعَلَ لَهُ مُمْسِكًا كَهَيْئَةِ التُّرْسِ، فَقُضِيَ أَنْ لَقِينَا عَدُوَّنَا فِيهِمْ أَخْلَاطٌ مِنَ الرُّومِ وَالْعَرَبِ مِنْ قُضَاعَةَ، فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِيدًا، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الرُّومِ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ، وَسَرْجٍ مُذَهَّبٍ وَمِنْطَقَةٍ مُلَطَّخَةٍ ذَهَبًا وَسَيْفٌ مِثْلُ ذَلِكَ، فَجَعَلَ يَحْمِلُ عَلَى الْقَوْمِ وَيُغْرِي بِهِمْ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ الْمَدَدِيُّ يَحْتَالُ لِذَلِكَ الرُّومِيِّ حَتَّى مَرَّ بِهِ فَاسْتَقْفَاهُ، فَضَرَبَ عُرْقُوبَ فَرَسِهِ بِالسَّيْفِ فَوَقَعَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ ضَرْبًا بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ الْفَتْحَ أَقْبَلَ يَسْأَلُ لِلسَّلَبِ، وَقَدْ شَهِدَ لَهُ النَّاسُ بِأَنَّهُ قَاتِلُهُ، فَأَعْطَاهُ خَالِدٌ بَعْضَ سَلَبِهِ، وَأَمْسَكَ سَائِرَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى رَحْلِ عَوْفٍ ذَكَرَهُ، فَقَالَ لَهُ عَوْفٌ: ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَلْيُعْطِكَ مَا بَقِيَ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ، فَمَشَى عَوْفٌ حَتَّى أَتَى خَالِدًا، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْفَعَ إِلَيْهِ سَلَبَ قَتِيلِهِ؟ قَالَ خَالِدٌ: اسْتَكْثَرْتُهُ لَهُ، قَالَ عَوْفٌ: لَئِنْ رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لَهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعَثَهُ عَوْفٌ فَاسْتَعْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا خَالِدًا وَعَوْفٌ قَاعِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَمْنَعُكَ يَا خَالِدُ أَنْ تَدْفَعَ إِلَى هَذَا سَلَبَ قَتِيلِهِ؟" قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" ادْفَعْهُ إِلَيْهِ"، قَالَ: فَمَرَّ بِعَوْفٍ، فَجَرَّ عَوْفٌ بِرِدَائِهِ، فَقَالَ: لِيَجْزِي لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ:" لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكِي أُمَرَائِي، إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا وْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا ثُمَّ تَخَيَّرَ سَقْيَهَا، فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا فَشَرَعَتْ فِيهِ فَشَرِبَتْ صَفْوَةَ الْمَاءِ وَتَرَكَتْ كَدَرَهُ، فَصَفْوُهُ لَكُمْ، وَكَدَرُهُ عَلَيْهِمْ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شام کی طرف ہم ایک غزوے میں شریک ہوئے ہمارے امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے قبیلہ حمیر کا ایک آدمی ہمارے ساتھ آکر شامل ہوگیا وہ ہمارے خیمے میں رہنے لگا اس کے پاس تلوار کے علاوہ کوئی اور چیز یا اسلحہ بھی نہ تھا اس دوران ایک مسلمان نے ایک اونٹ ذبح کیا وہ شخص مسلسل تاک میں رہا حتی کے موقع ما کر ایک ڈھال کے برابر اس کی کھال حاصل کرلی اور اسے زمین پر بچھا دیا جب وہ خشک ہوگئی تو اس کے لئے ڈھال بن گئی۔ ادھر یہ ہوا کہ دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوگیا جن میں رومی اور بنو قضاعہ کے عرب مشترکہ طور پر جمع تھے انہوں نے ہم سے بڑی سخت معرکہ آرائی کی رومیوں میں ایک آدمی ایک سرخ وسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین بھی سونے کی تھی اور پٹکا بھی مخلوط سونے کا تھا یہی حال اس کی تلوار کا تھا وہ مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملہ کر رہا تھا اور وہ حمیری آدمی مسلسل اس کی تاک میں تھا حتیٰ کہ جب وہ رومی اس کے پاس سے گذرا تو اس نے عقب سے نکل کر اس پر حملہ کردیا اور اس کے گھوڑے کی پنڈلی پر تلوار ماری جس سے وہ نیچے گرگیا پھر اس نے تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ اس رومی کو قتل کردیا۔ فتح حاصل ہونے کے بعد جب اس نے اس کا سامان لینے کا ارادہ کیا اور لوگوں نے بھی گواہی دی کہ اس رومی کو اسی نے قتل کیا ہے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور کچھ سامان کو روک لیا اس نے عوف رضی اللہ عنہ کے خیمے میں واپس آکر ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تم دوبارہ ان کے پاس جاؤ انہیں تمہارا سامان تمہیں دے دینا چاہئے چناچہ وہ دوبارہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس گیا لیکن انہوں نے پھر انکار کردیا اس پر حضرت عوف کو ملے گا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر اس کے مقتول کا سامان اس کے حوالے کرنے میں آپ کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور دیکھ سکا تو ان سے اس کا ذکر ضرور کروں گا۔ جب وہ مدینہ منورہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تجھے کس نے اس کو سامان دینے سے منع کیا؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے (اس سامان کو) بہت زیادہ سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے سامان دے دو پھر وہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی چادر کھینچی اور فرمایا میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تھا وہی ہوا ہے نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خالد! اب اسے نہ دینا (اور آپ نے فرمایا) کیا تم میرے نگرانوں کو چھوڑ نہیں سکتے؟ کیونکہ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کے لئے خریدیں پھر (ان جانوروں) کے پانی پینے کا وقت دیکھ کر ان کو حوض پر لایا اور انہوں نے پانی پینا شروع کردیا تو صاف صاف پانی انہوں نے پی لیا اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف یعنی عمدہ چیزیں تمہارے لئے ہیں اور بری چیزیں نگرانوں کے لئے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23987]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1753
حدیث نمبر: 23988
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمْ يُخَمِّسْ السَّلَبَ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولوں سے چھینے ہوئے سازوسامان میں سے خمس نہیں نکالا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23988]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23989
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ أَبُو الْعَلَاءِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَيْنِ سَيْفًا مِنْهَا، وَسَيْفًا مِنْ عَدُوِّهَا" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ اس امت پر دو تلواریں ہرگز جمع نہیں فرمائے گا ایک اس امت کی اپنی اور دوسری اس کے دشمن کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23989]
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن كان إسماعيل ابن عياش حفظه
حدیث نمبر: 23990
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ الْحِمْصِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ نُفَيْرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَظَرَ فِي السَّمَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " هَذَا أَوَانُ الْعِلْمِ أَنْ يُرْفَعَ"، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ: أَيُرْفَعُ الْعِلْمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَفِينَا كِتَابُ اللَّهِ، وَقَدْ عَلَّمْنَاهُ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّكَ مِنْ أَفْقَهِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ" ، ثُمَّ ذَكَرَ ضَلَالَةَ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ، وَعِنْدَهُمَا مَا عِنْدَهُمَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَقِيَ جُبَيْرُ بْنُ نُفَيْرٍ شَدَّادَ بْنَ أَوْسٍ بِالْمُصَلَّى، فَحَدَّثَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ: صَدَقَ عَوْفٌ، ثُمَّ قَالَ: وَهَلْ تَدْرِي مَا رَفْعُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: ذَهَابُ أَوْعِيَتِهِ، قَالَ: وَهَلْ تَدْرِي أَيُّ الْعِلْمِ أَوَّلُ أَنْ يُرْفَعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: الْخُشُوعُ، حَتَّى لَا تَكَادُ تَرَى خَاشِعًا.
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا پھر فرمایا علم اٹھائے جانے کا وقت قریب آگیا ہے ایک انصاری آدمی " جس کا نام زیاد بن لبید تھا " نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہمارے درمیان سے علم کو اٹھا لیا جائے گا جبکہ ہمارے درمیان کتاب اللہ موجود ہے اور ہم نے اسے اپنے بیٹوں اور عورتوں کو سکھا رکھا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو تمہیں اہل مدینہ کے سمجھدار لوگوں میں سے سمجھتا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں اہل کتاب کی گمراہی کا ذکر کیا اور یہ کہ ان کے پاس بھی کتاب اللہ موجود تھی۔ اس کے بعد جبیر بن نفیر کی عیدگاہ میں شداد بن اوس سے ملاقات ہوئی تو جبیر نے انہیں حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی حضرت عوف رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی اور کہنے لگے کہ تمہارے " علم کا اٹھا لینے کا مطلب معلوم ہے؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا علم کے برتنوں کا اٹھ جانا پھر پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ سب سے پہلے کون سا علم اٹھایا جائے گا؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا خشوع حتیٰ کہ تم کسی خشوع والے آدمی کو نہ دیکھو گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23990]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 23991
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي النَّهَّاسُ بْنُ قَهْمٍ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ شَدَّادٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كُنَّ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ، أَو ابنتَانِ أَوْ أُخْتَانِ، اتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ حَتَّى يَبِنَّ أَوْ يَمُتْنَ، كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی تین یا دو بیٹیاں یا بہنیں ہوں وہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے یہاں تک کہ ان کی شادی ہوجائے یا وہ فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23991]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، على بن عاصم، والنهاس بن قهم ضعيفان، لكن الأول منهما متابع، وأبو عمار لم يسمع من عوف
حدیث نمبر: 23992
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ الْأَشَجِّ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ قَاصَّ مَسْلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر جو تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23992]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالله بن يزيد، وابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد اضطرب فيه
حدیث نمبر: 23993
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ لَقِيطٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سِتَّةِ نَفَرٍ أَوْ سَبْعَةٍ أَوْ ثَمَانِيَةٍ، فَقَالَ لَنَا: " بَايِعُونِي" فَقُلْنَا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ بَايَعْنَاكَ، قَالَ:" بَايِعُونِي" فَبَايَعْنَاهُ فَأَخَذَ عَلَيْنَا بِمَا أَخَذَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ أَتْبَعَ ذَلِكَ كَلِمَةً خَفِيَّةً، فَقَالَ:" لَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں چھ سات یا آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! ہم تو آپ کی بیعت کرچکے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی بات دہرائی چناچہ ہم نے دوبارہ بیعت کرلی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وہی عہد لیا جو عام لوگوں سے لیا تھا البتہ آخر میں آہستہ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23993]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد، رواية قتيبة عن ابن لهيعة صالحة
حدیث نمبر: 23994
حَدَّثَنَا هَارُونُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ يَعْقُوبَ أَخَاهُ، وَابْنَ أَبِي حَفْصَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ قَاصَّ مَسْلَمَةَ حَدَّثَهُمَا، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَقُصُّ عَلَى النَّاسِ إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر جو تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23994]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالله بن زيد
حدیث نمبر: 23995
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ بِالْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ لِلْمُسَافِرِ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ" .
حضرن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں مسافروں کو تین دن رات اور مقیم ایک دن رات موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23995]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 23996
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي خِدْرٍ لَهُ، فَقُلْتُ: أَدْخُلُ؟، فَقَالَ:" ادْخُلْ"، قُلْتُ: أَكُلِّي؟ قَالَ:" كُلُّكَ"، فَلَمَّا جَلَسْتُ، قَالَ: " امْسِكْ سِتًّا تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ: أَوَّلُهُنَّ وَفَاةُ نَبِيِّكُمْ"، قَالَ: فَبَكَيْتُ، قَالَ هُشَيْمٌ: وَلَا أَدْرِي بِأَيِّهَا بَدَأَ، ثُمَّ" فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَفِتْنَةٌ تَدْخُلُ بَيْتَ كُلِّ شَعَرٍ وَمَدَرٍ، وَأَنْ يَفِيضَ الْمَالُ فِيكُمْ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَتَسَخَّطَهَا، وَمُوتَانٌ يَكُونُ فِي النَّاسِ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، قَالَ: وَهُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ بِكُمْ، فَيَسِيرُونَ إِلَيْكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةً، وَقَالَ يَعْلَى: فِي سِتِّينَ غَايَةً تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی اور عرض کیا کہ پورا اندر آجاؤں یا آدھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پورے ہی اندر آجاؤ، چناچہ میں اندر چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عمدگی کے ساتھ وضو فرما رہے تھے مجھ سے فرمانے لگے اے عوف بن مالک! قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرلینا سب سے پہلے تمہارے نبی کا انتقال ہوجائے گا پھر بیت المقدس فتح ہوجائے گا پھر بکریوں میں موت کی وباء جس طرح پھیلتی ہے تم میں بھی اسی طرح پھیل جائے گی پھر فتنوں کا ظہور ہوگا اور مال و دولت اتنا بڑھ جائے گا کہ اگر کسی آدمی کو سو دینار بھی دیئے جائیں گے تو وہ پھر بھی ناراض رہے گا پھر اسی جھنڈوں کے نیجے جن میں سے ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار کا لشکر ہوگا رومی لوگ تم سے لڑنے کے لئے آجائیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23996]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3176، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن أبى محمد عن عوف بن مالك
حدیث نمبر: 23997
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، وَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُ سَيْفِهِ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ جَزُورًا، فَسَأَلَهُ الْمَدَدِيُّ طَائِفَةً مِنْ جِلْدِهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَاتَّخَذَهُ كَهَيْئَةِ الدَّرَقِ، وَمَضَيْنَا فَلَقِينَا جُمُوعَ الرُّومِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ أَشْقَرَ، عَلَيْهِ سَرْجٌ مُذَهَّبٌ، وَسِلَاحٌ مُذَهَّبٌ، فَجَعَلَ الرُّومِيُّ يُغْرِي بِالْمُسْلِمِينَ، وَقَعَدَ لَهُ الْمَدَدِيُّ خَلْفَ صَخْرَةٍ، فَمَرَّ بِهِ الرُّومِيُّ، فَعَرْقَبَ فَرَسَهُ، فَخَرَّ وَعَلَاهُ فَقَتَلَهُ، وَحَازَ فَرَسَهُ وَسِلَاحَهُ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ بَعَثَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَأَخَذَ مِنْهُ السَّلَبَ، قَالَ عَوْفٌ: فَأَتَيْتُهُ، فقلت: يا خالد، أما علمت أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ , قُلْتُ: لَتَرُدَّنَّهُ إِلَيْهِ أَوْ لَأُعَرِّفَنَّكَهَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ، قَالَ عَوْفٌ: فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَصَصْتُ عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَدَدِيِّ وَمَا فَعَلَهُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا خَالِدُ، " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اسْتَكْثَرْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا خَالِدُ، رُدَّ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ"، قَالَ عَوْفٌ: فَقَالت: دُونَكَ يَا خَالِدُ، أَلَمْ أَفِ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا ذَاكَ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَالَ: يَا خَالِدُ،" لَا تَرُدَّهُ عَلَيْهِ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو إِلَيَّ أُمَرَائِي، لَكُمْ صَفْوَةُ أَمْرِهِمْ، وَعَلَيْهِمْ كَدَرُهُ" ، قَالَ الْوَلِيدُ : سَأَلْتُ ثَوْرًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، نَحْوَهُ.
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شام کی طرف ہم ایک غزوے میں شریک ہوئے ہمارے امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے قبیلہ حمیر کا ایک آدمی ہمارے ساتھ آکر شامل ہوگیا وہ ہمارے خیمے میں رہنے لگا اس کے پاس تلوار کے علاوہ کوئی اور چیز یا اسلحہ بھی نہ تھا اس دوران ایک مسلمان نے ایک اونٹ ذبح کیا وہ شخص مسلسل تاک میں رہا حتی کے موقع پا کر ایک ڈھال کے برابر اس کی کھال حاصل کرلی اور اسے زمین پر بچھا دیا جب وہ خشک ہوگئی تو اس کے لئے ڈھال بن گئی۔ ادھر یہ ہوا کہ دشمن سے ہمارا آمنا سامنا ہوگیا جن میں رومی اور بنو قضاعہ کے عرب مشترکہ طور پر جمع تھے انہوں نے ہم سے بڑی سخت معرکہ آرائی کی رومیوں میں ایک آدمی ایک سرخ وسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین بھی سونے کی تھی اور پٹکا بھی مخلوط سونے کا تھا یہی حال اس کی تلوار کا تھا وہ مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملہ کر رہا تھا اور وہ حمیری آدمی مسلسل اس کی تاک میں تھا حتیٰ کہ جب وہ رومی اس کے پاس سے گذرا تو اس نے عقب سے نکل کر اس پر حملہ کردیا اور اس کے گھوڑے کی پنڈلی پر تلوار ماری جس سے وہ نیچے گرگیا پھر اس نے تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ اس رومی کو قتل کردیا۔ فتح حاصل ہونے کے بعد جب اس نے اس کا سامان لینے کا ارادہ کیا اور لوگوں نے بھی گواہی دی کہ اس رومی کو اسی نے قتل کیا ہے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور کچھ سامان کو روک لیا اس نے عوف رضی اللہ عنہ کے خیمے میں واپس آکر ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تم دوبارہ ان کے پاس جاؤ انہیں تمہارا سامان تمہیں دے دینا چاہئے چناچہ وہ دوبارہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس گیا لیکن انہوں نے پھر انکار کردیا اس پر حضرت عوف رضی اللہ عنہ کو ملے گا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر اس کے مقتول کا سامان اس کے حوالے کرنے میں آپ کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اسے بہت زیادہ سمجھتا ہوں حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور دیکھ سکا تو ان سے اس کا ذکر ضرور کروں گا۔ جب وہ مدینہ منورہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تجھے کس نے اس کو سامان دینے سے منع کیا؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے (اس سامان کو) بہت زیادہ سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے سامان دے دو پھر وہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی چادر کھینچی اور فرمایا میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تھا وہی ہوا ہے نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خالد! اب اسے نہ دینا (اور آپ نے فرمایا) کیا تم میرے نگرانوں کو چھوڑ نہیں سکتے؟ کیونکہ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کے لئے خریدیں پھر (ان جانوروں) کے پانی پینے کا وقت دیکھ کر ان کو حوض پر لایا اور انہوں نے پانی پینا شروع کردیا تو صاف صاف پانی انہوں نے پی لیا اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف یعنی عمدہ چیزیں تمہارے لئے ہیں اور بری چیزیں نگرانوں کے لئے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23997]
حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، م: 1753
حدیث نمبر: 23998
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ يَعْنِي أَبَا جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ دَخَلَ، وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ وَبِيَدِهِ عَصًا، وَقَدْ عَلَّقَ رَجُلٌ أَقْنَاءَ حَشَفٍ، فَطَسَّ بِالْعَصَا فِي ذَلِكَ الْقِنْوِ، ثُمَّ قَالَ: " لَوْ شَاءَ رَبُّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ تَصَدَّقَ بِأَطْيَبَ مِنْ هَذَا، إِنَّ رَبَّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ يَأْكُلُ الْحَشَفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں عصا تھا مسجد میں اس وقت کچھ خوشے لٹکے ہوئے تھے جن میں سے ایک خوشے میں گدر کھجوریں بھی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دست مبارک کے عصا سے ہلایا اور فرمایا اگر یہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے زیادہ صدقہ کرسکتا تھا یہ صدقہ کرنے والا قیامت کے دن گدر کھجوریں کھائے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23998]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 23999
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خِيَارُكُمْ وَخِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُكُمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ"، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ:" لَا، مَا صَلَّوْا لَكُمْ الْخَمْسَ، أَلَا وَمَنْ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعَاصِي اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا أَتَى، وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَتِهِ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تمہارے حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرتے ہو گے اور وہ تم سے محبت کرتے ہوں گے تم ان کے لئے دعائیں کرتے ہو گے اور وہ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہوں گے اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم نفرت کرتے ہو گے اور وہ تم سے نفرت کرتے ہونگے تم ان پر لعنت کرتے ہوگے اور وہ تم پر لعنت کرتے ہوں گے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم ایسے حکمرانوں کو باہر نکال کر پھینک نہ دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پر قائم رہیں البتہ جس پر حکمران کوئی گورنر مقرر کر دے اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام کرتے ہوئے دیکھے تو اس نافرمانی پر نکیر کرے لیکن اس کی اطاعت سے اپنا ہاتھ نہ کھینچے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23999]
حكم دارالسلام: حديث جيد، م: 1855، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج بن فضالة، لكنه متابع
حدیث نمبر: 24000
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيِّتٍ، قَالَ: فَفَهِمْتُ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَيْهِ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی میت کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا سمجھ میں آئی " اے اللہ! اسے معاف فرما اس پر رحم فرما اسے عافیت عطا فرما اور اس سے درگذر فرما اس کا ٹھکانہ باعزت جگہ بنا اس کے داخل ہونے کی جگہ (قبر) کو کشادہ فرما اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو دے اسے گناہوں سے ایسے صاف فرمادے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کردیتا ہے اس کے گھر سے بہترین گھر اس کے اہل خانہ سے بہترین اہل خانہ اور اس کی بیوی سے بہترین بیوی عطا فرما اسے جنت میں داخل فرما جہنم سے محفوظ فرما اور عذاب قبر سے نجات عطا فرما "۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24000]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 963
حدیث نمبر: 24001
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَزْهَرَ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ذِي كَلَاعٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْقُصَّاصُ ثَلَاثَةٌ: أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر جو تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24001]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 24002
حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي مَلِيحٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: عَرَّسَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَرَشَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا ذِرَاعَ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَانْتَهَيْتُ إِلَى بَعْضِ الْإِبِلِ فَإِذَا نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ قُدَّامَهَا أَحَدٌ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ قَائِمَانِ، قُلْتُ: أَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَا: مَا نَدْرِي، غَيْرَ أَنَّا سَمِعْنَا صَوْتًا بِأَعْلَى الْوَادِي، فَإِذَا مِثْلُ هَزِيزِ الرَّحْلِ، قَالَ: امْكُثُوا يَسِيرًا، ثُمَّ جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ"، فَقُلْنَا: نَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالصُّحْبَةَ لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِكَ، قَالَ:" فَإِنَّكُمْ مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِي"، قَالَ: فَأَقْبَلْنَا مَعَانِيقَ إِلَى النَّاسِ، فَإِذَا هُمْ قَدْ فَزِعُوا وَفَقَدُوا نَبِيَّهُمْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ مِنْ رَبِّي آتٍ فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، وَإِنِّي اخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالصُّحْبَةَ لَمَا جَعَلْتَنَا مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِكَ، قَالَ: فَلَمَّا أَضَبُّوا عَلَيْهِ، قَالَ:" فَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنَّ شَفَاعَتِي لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مِنْ أُمَّتِي" ..
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے قریب ہوتے تھے ایک مرتبہ ہم نے کسی جگہ پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے ہم آس پاس سو رہے تھے اچانک میں رات کو اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نظر آئے میں نے ان کے پاس پہنچ کر ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو اچانک ہم نے ایسی آواز سنی جو چکی کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے اور اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رک گئے اس آواز کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے۔ قریب آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا کہ جب ہماری آنکھ کھلی اور ہمیں آپ اپنی جگہ نظر نہ آئے تو ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے، اس لئے ہم آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکلے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور اس نے مجھے ان دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل ہوجائے یا مجھے شفاعت کا اختیار مل جائے تو میں نے شفاعت والے پہلو کو ترجیح دے لی، ہم دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ سے اسلام اور حق صحابیت کے واسطے سے درخواست کرتے ہیں کہ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ آپ کی شفاعت میں ہمیں بھی شامل کر دے، دیگر حضرات بھی آگئے اور وہ بھی یہی درخواست کرنے لگے اور ان کی تعداد بڑھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24002]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 24003
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ الْهُذَلِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَأَنَاخَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَخْنَا مَعَهُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ".
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24003]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 24004
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَتَاهُ الْفَيْءُ قَسَمَهُ مِنْ يَوْمِهِ، فَأَعْطَى الْآهِلَ حَظَّيْنِ، وَأَعْطَى الْعَزَبَ حَظًّا" .
حضرت عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کہیں سے مال غنیمت آتا تھا تو اسے اسی دن تقسیم فرما دیتے تھے شادی شدہ کو دو حصے دیتے تھے اور کنوارے کو ایک حصے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24004]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 24005
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ مَسْجِدَ حِمْصَ، قَالَ: وَإِذَا النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ قَالُوا: كَعْبٌ يَقُصُّ، قَالَ: يَا وَيْحَهُ، أَلَا سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُخْتَالٌ؟!" .
ایک مرتبہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اور ذوالکلاع مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کے پاس تو آپ کا بھتیجا (کعب احبار) ہے ذوالکلاع نے کہا کہ وہ تمام لوگوں میں سب سے بہترین آدمی ہے حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے وعظ گوئی وہی کرسکتا ہے جو امیر ہو یا اسے اس کا حکم اور اجازت حاصل ہو یا پھر تکلف (ریاکاری) کر رہا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24005]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 24006
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّهَّاسُ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ كَهَاتَيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، وَجَمَعَ بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى" امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا، حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى أَيْتَامِهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ عورت جو منصب اور جمال کی حامل تھی اپنے شوہر سے بیوہ ہوگئی اور اپنے آپ کو اپنے یتیم بچوں کے لئے وقف کردیا حتیٰ کہ وہ اس سے جدا ہوگئے یا مرگئے قیامت کے دن میں اور وہ سیاہ رخساروں والی عورت ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی کو جمع فرمایا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24006]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف النهاس، ولانقطاعه بين شداد و عوف
حدیث نمبر: 24007
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّهَّاسُ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَكُونُ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَأَنْفَقَ عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَبِنَّ أَوْ يَمُتْنَ، إِلَّا كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ"، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْ اثْنَتَانِ؟ قَالَ:" أَوْ اثْنَتَانِ" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی تین یا دو بیٹیاں یا بہنیں ہوں وہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے یہاں تک کہ ان کی شادی ہوجائے یا وہ فوت ہوجائیں تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24007]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف النهاس، ولانقطاعه بين شداد و عوف
حدیث نمبر: 24008
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ النَّهَّاسِ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ، امْرَأَةٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا، فَحَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا" .
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ عورت جو منصب اور جمال کی حامل تھی اپنے شوہر سے بیوہ ہوگئی اور اپنے آپ کو اپنے یتیم بچوں کے لئے وقف کردیا حتیٰ کہ وہ اس سے جدا ہوگئے یا مرگئے قیامت کے دن میں اور وہ سیاہ رخساروں والی عورت ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی کو جمع فرمایا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 24008]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف النهاس، ولانقطاعه بين شداد و عوف