سیدنا عتبان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، جس وقت آپ نے سلام پھیرا، ہم بھی سلام پھیر کر فارغ ہو گئے، یہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مسجد میں پڑھی تھی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16479]
سیدنا عتبان بن مالک کی بینائی انتہائی کمزور تھی (تقریبا نابینا تھے) انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکر ہ کیا کہ وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدم حاضری کی رخصت نہ دی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16480]
حكم دارالسلام: حديث ضعيف لشذوذه ، فقد خالف فيه ابن عيينة أصحاب الزهري
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کہ میری نظر کمزور ہے اور میرے اور آپ کے درمیان یہ وادی اور ظلمت بھی حائل ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، لیکن ایک آدمی " جس کا نام مالک بن وخش تھا " آنے سے رہ گیا اور لوگ اس پر نفاق کا طعنہ اور الزام پہلے ہی سے لگاتے تھے۔ لوگ کھانے کے وقت تک رکے رہے اور آپس میں باتیں کرنے لگے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں لیکن وہ محض اپنے نفاق کی وجہ سے ہی پیچھے رہ گیا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمانے لگے افسوس! کیا وہ خلوص جل کے ساتھ " لا الہ اللہ " کی گواہی نہیں دیتا؟ جو شخص اس کلمے کی گواہی دیتا ہے، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دے دی ہے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16481]
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة، سفيان بن حسين ضعيف الحديث عن الزهري
سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! میری قوم کی مسجد اور میرے درمیان سیلاب حائل ہو جاتا ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کر لوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا، چنانچہ ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا: تم کس جگہ کو جائے نماز بنانا چاہتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ہم نے ان کے پیچھے صف بندی کر لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر یم صلی اللہ علیہ کو کھانے پر روک لیا، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے آنے لگے، سارا گھر بھر گیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ مالک بن دخشم کہاں ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے نہ کہو، وہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس نے کہا کہ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ اس کی توجہ اور باتیں منافقین کی طرف مائل ہو تی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جملہ دہرایا، دوسرے آدمی نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوا قیامت کے دن آئے گا، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے، محمود کہتے ہیں کہ یہ حدیث جب میں نے ایک جماعت کے سامنے بیان کی جن میں ایوب بھی تھے، تو وہ کہنے لگے میں نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ہو گا، میں نے کہا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ پہنچا اور سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ زندہ ہوئے تو میں ان سے یہ سوال ضرور کر وں گا، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو وہ نابینا ہو چکے تھے اور اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا: تو انہوں مجھے یہ حدیث اس طرح سنا دی جیسے پہلے سنائی تھی اور یہ بدری صحابی تھے۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16482]
ابوبکر بن انس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب شام سے واپس آئے، میں ان کے ہمراہ تھا، تو ہماری ملاقات محمود بن ربیع سے ہو گئی انہوں نے میرے والد صاحب کو سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی والد صاحب نے فرمایا: بیٹے! اس حدیث کو یاد کر لو کہ یہ حدیث کا خزانہ ہے واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ وہ اس وقت حیات تھے لیکن انتہائی بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے فرمایا: ہاں! [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16484]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف على بن زيد