الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
5. مُسْنَدُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 399
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الْفَارِسِيَّ . قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَكُمْ عَلَى أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ، فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ تَكْتُبُوا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: بَيْنَهُمَا سَطْرًا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ، مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ عُثْمَانُ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ مِنَ السُّوَرِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَكَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ يَدْعُو بَعْضَ مَنْ يَكْتُبُ عِنْدَهُ، يَقُولُ:" ضَعُوا هَذَا فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَيُنْزَلُ عَلَيْهِ الْآيَاتُ، فَيَقُولُ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَيُنْزَلُ عَلَيْهِ الْآيَةُ، فَيَقُولُ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَ بِالْمَدِينَةِ، وَبَرَاءَةٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، فَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهًا بِقِصَّتِهَا، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا، وَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَمِنْ ثَمَّ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرًا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: وَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے سورت انفال کو جو مثانی میں سے ہے سورت برائۃ کے ساتھ جو کہ مئین میں سے ہے ملانے پر کس چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پایا اور آپ نے ان کے درمیان ایک سطر کی بسم اللہ تک نہیں لکھی اور ان دونوں کو سبع طوال میں شمار کر لیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہو رہا تھا تو بعض اوقات کئی کئی سورتیں اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کاتب وحی کو بلا کر اسے لکھواتے اور فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو، بعض اوقات کئی آیتیں نازل ہوتیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے کہ ان آیات کو اس سورت میں رکھو اور بعض اوقات ایک ہی آیت نازل ہوتی لیکن اس کی جگہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیا کرتے تھے۔ سورت انفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورت برائۃ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کا آخری حصہ ہے اور دونوں کے واقعات و احکام ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہم پر یہ واضح نہ فرما سکے کہ یہ اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ میرا گمان یہ ہوا کہ سورت برائۃ، سورت انفال ہی کا جزو ہے اس لئے میں نے ان دونوں کو ملا دیا اور ان دونوں کے درمیان، بسم اللہ والی سطر بھی نہیں لکھی اور اسے سبع طوال میں شمار کر لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 399]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ومتنه منكر
حدیث نمبر: 400
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَنَّ حُمْرَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: تَوَضَّأَ عُثْمَانُ عَلَى الْبَلَاطِ، ثُمَّ قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْلَا آيَةٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُكُمُوهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ دَخَلَ فَصَلَّى، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الْأُخْرَى حَتَّى يُصَلِّيَهَا".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پتھر کی چوکی پر بیٹھ کر وضو فرمایا اس کے بعد فرمایا کہ میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہوئی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اگر کتاب اللہ میں ایک آیت (جو کتمان علم کی مذمت پر مشتمل ہے) نہ ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث کبھی بیان نہ کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھے، تو اگلی نماز پڑھنے تک اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 400]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 401
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُحْرِمُ لَا يَنْكِحُ، وَلَا يُنْكِحُ، وَلَا يَخْطُبُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے، بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 401]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1409
حدیث نمبر: 402
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ حَرْمَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدًا يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: خَرَجَ عُثْمَانُ حَاجًّا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، قِيلَ لِعَلِيٍّ :" إِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَصْحَابِهِ: إِذَا ارْتَحَلَ فَارْتَحِلُوا، فَأَهَلَّ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ بِعُمْرَةٍ، فَلَمْ يُكَلِّمْهُ عُثْمَانُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ؟ قَالَ: فَقَالَ: بَلَى، قَالَ: فَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَتَّعَ؟ قَالَ: بَلَى".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کر چکے تو کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج تمتع کرنے کے بارے میں نہیں سنا؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 402]
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1569، م: 1223، ابن حرملة مختلف فيه، روي له مسلم حديثاً واحداً فى القنوت متابعة .
حدیث نمبر: 403
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عُثْمَانَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 403]
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، عامر بن شقيق ضعفه ابن معين وذكره ابن حبان فى الثقات
حدیث نمبر: 404
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أبي أَنَسٍ : أَنَّ عُثْمَانَ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَعِنْدَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلَيْسَ هَكَذَا رَأَيْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟ قَالُوا: نَعَمْ.
ابوانس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اس وقت ان کے پاس چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اسی طرح دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 404]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 230
حدیث نمبر: 405
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْضَلُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے افضل اور بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 405]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5028
حدیث نمبر: 406
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالصَّلَوَاتُ الْمَكْتُوبَاتُ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 406]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 231
حدیث نمبر: 407
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ قَيْسٌ : فَحَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ : أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ يَوْمَ الدَّارِ حِينَ حُصِرَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ"، قَالَ قَيْسٌ: فَكَانُوا يَرَوْنَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
ابوسہلہ کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوا اور وہ یوم الدار کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم اور قائم ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 407]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 408
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةَ الْعِشَاءِ، وَالصُّبْحِ فِي جَمَاعَةٍ، فَهُوَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ"، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:" مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، فَهُوَ كَقِيَامِ نِصْفِ لَيْلَةٍ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ، فَهُوَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے ساری رات قیام کرنا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 408]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 656
حدیث نمبر: 409
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، فَهُوَ كَمَنْ قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ، فَهُوَ كَمَنْ قَامَ اللَّيْلَ كُلَّهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے ساری رات قیام کرنا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 409]
حكم دارالسلام: حديث صحيح كسابقه، وهذا سند فيه انقطاع، محمد بن إبراهيم التيمي لم يدرك عثمان بن عفان
حدیث نمبر: 410
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ فَرُّوخَ مَوْلَى الْقُرَشِيِّينَ: أَنَّ عُثْمَانَ اشْتَرَى مِنْ رَجُلٍ أَرْضًا، فَأَبْطَأَ عَلَيْهِ، فَلَقِيَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا مَنَعَكَ مِنْ قَبْضِ مَالِكَ؟ قَالَ: إِنَّكَ غَبَنْتَنِي، فَمَا أَلْقَى مِنَ النَّاسِ أَحَدًا إِلَّا وَهُوَ يَلُومُنِي، قَالَ: أَوَ ذَلِكَ يَمْنَعُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاخْتَرْ بَيْنَ أَرْضِكَ وَمَالِكَ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ رَجُلًا كَانَ سَهْلًا مُشْتَرِيًا، وَبَائِعًا، وَقَاضِيًا، وَمُقْتَضِيًا".
عطاء بن فروخ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کوئی زمین خریدی، لیکن جب اس کی طرف سے تاخیر ہوئی تو انہوں نے اس سے ملاقات کی اور اس سے فرمایا کہ تم اپنی رقم پر قبضہ کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا کہ آپ نے مجھے دھوکہ دیا، میں جس آدمی سے بھی ملتا ہوں وہ مجھے ملامت کرتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم صرف اس وجہ سے رکے ہوئے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، فرمایا: پھر اپنی زمین اور پیسوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے لو (اگر تم اپنی زمین واپس لینا چاہتے ہو تو وہ لے لو اور اگر پیسے لینا چاہتے ہو تو وہ لے لو) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 410]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وله شاهد من حديث جابر فى صحيح البخاري : 2076 وغيره، عطاء بن فروخ روى عنه اثنان، ولم يوثقه غير ابن حبان، وذكر على بن المديني فى العلل أنه لم يلق عثمان
حدیث نمبر: 411
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَهُوَ عِنْدَ عُثْمَانَ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا بَقِيَ لِلنِّسَاءِ مِنْكَ؟ قَالَ: فَلَمَّا ذُكِرَتْ النِّسَاءُ، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: ادْنُ يَا عَلْقَمَةُ، قَالَ: وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فِتْيَةٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَ:" مَنْ كَانَ مِنْكُمْ ذَا طَوْلٍ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلطَّرْفِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَا، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ عورتوں کے لئے آپ کے پاس کیا باقی بچا؟ عورتوں کا تذکرہ ہوا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھے قریب ہونے کے لئے کہا کہ میں اس وقت نوجوان تھا، پھر خود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہی فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کے نوجوانوں کی ایک جماعت کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس کے پاس استطاعت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہ کی بھی حفاظت ہو جاتی ہے اور جو ایسا نہ کر سکے، وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو توڑ دیتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 411]
حكم دارالسلام: صحيح محفوظ من حديث ابن مسعود الآتي برقم: 3592، وقد وهم أبو معشر فى جعل هذا الحديث عن عثمان بن عفان
حدیث نمبر: 412
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَبَهْزٌ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ مَرْثَدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ خَيْرَكُمْ مَنْ عَلَّمَ الْقُرْآنَ، أَوْ تَعَلَّمَهُ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَحَجَّاجٌ: فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَذَاكَ الَّذِي أَقْعَدَنِي هَذَا الْمَقْعَدَ، قَالَ حَجَّاجٌ: قَالَ شُعْبَةُ: وَلَمْ يَسْمَعْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ عُثْمَانَ، وَلَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَلَكِنْ قَدْ سَمِعَ مِنْ عَلِيٍّ، قَالَ أَبِي: وَقَالَ بَهْزٌ: عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ أَخْبَرَنِي، وَقَالَ:" خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے، راوی حدیث ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ اسی حدیث نے مجھے یہاں (قرآن پڑھانے کے لئے) بٹھا رکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 412]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5028
حدیث نمبر: 413
حَدَّثَنَاه عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، وَقَالَ فِيهِ:" مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، أَوْ عَلَّمَهُ".
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 413]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح كسابقه
حدیث نمبر: 414
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يُحَدِّثُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَ رَجُلٌ سَمْحًا بَائِعًا وَمُبْتَاعًا، وَقَاضِيًا وَمُقْتَضِيًا، فَدَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) ہونے میں یا ادا کرنے والا اور تقاضا کرنے والا ہونے کی صورت میں نرم خو ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 414]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الذى روى عنه عمرو بن دينار، ويحمتل أن يكون عطاء بن فروخ
حدیث نمبر: 415
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : أَنَّهُ دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، وَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَظَهْرِ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: أَلَا تَسْأَلُونِي عَمَّا أَضْحَكَنِي؟ فَقَالُوا: مِمَّ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِمَاءٍ قَرِيبًا مِنْ هَذِهِ الْبُقْعَةِ، فَتَوَضَّأَ كَمَا تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقَالَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي مَا أَضْحَكَنِي؟" فَقَالُوا: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا دَعَا بِوَضُوءٍ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ خَطِيئَةٍ أَصَابَهَا بِوَجْهِهِ، فَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ كَانَ كَذَلِكَ، وَإِنْ مَسَحَ بِرَأْسِهِ كَانَ كَذَلِكَ، وَإِذَا طَهَّرَ قَدَمَيْهِ كَانَ كَذَلِكَ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا، چنانچہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور دونوں بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصے پر بھی مسح فرمایا اور ہنس پڑے، پھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ ہی بتائیے کہ آپ کیوں ہنسے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے بھی اسی طرح پانی منگوایا اور اس جگہ کے قریب بیٹھ کر اسی طرح وضو کیا جیسے میں نے کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنس پڑے اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ فرمایا: انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے وہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے جو چہرے سے ہوتے ہیں، جب بازو دھوتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جب سر کا مسح کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور جب پاؤں کو پاک کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 415]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قتادة لم يسمع من مسلم بن يسار فيما قاله يحيى القطان وأبو حاتم
حدیث نمبر: 416
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، أَخْبَرَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَى حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ رَبَاحٍ قَالَ: زَوَّجَنِي أَهْلِي أَمَةً لَهُمْ رُومِيَّةً، فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَوَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ عَبْدَ اللَّهِ، ثُمَّ وَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَوَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ عُبَيْدَ اللَّهِ، ثُمَّ طَبِنَ لَهَا غُلَامٌ لِأَهْلِي رُومِيٌّ، يُقَالُ لَهُ: يُوحَنَّسُ، فَرَاطَنَهَا بِلِسَانِهِ، قَالَ: فَوَلَدَتْ غُلَامًا كَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا هَذَا؟ قَالَتْ: هُوَ لِيُوحَنَّسَ، قَالَ: فَرُفِعْنَا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ ، قَالَ مَهْدِيٌّ: أَحْسَبُهُ قَالَ: سَأَلَهُمَا فَاعْتَرَفَا، فَقَالَ: أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ: الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرَ". قَالَ مَهْدِيٌّ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: جَلَدَهَا وَجَلَدَهُ، وَكَانَا مَمْلُوكَيْنِ.
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کر دی، میں اس کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہو گیا، میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہو گیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہو گیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کر لیا، چنانچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا، میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے فرمایا «‏‏‏‏کہ کیا تم اس» بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستر والے کا ہو گا اور زانی کے لئے پتھر ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 416]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة رباح وللمرفوع شاهد من حديث أبى هريرة متفق عليه
حدیث نمبر: 417
حَدَّثَنَا عبد الله: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ رَبَاحٍ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَرَفَعْتُهُمَا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ... فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گزری۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 417]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه
حدیث نمبر: 418
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ حُمْرَانَ ، قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ بِمَاءٍ وَهُوَ عَلَى الْمَقَاعِدِ، فَسَكَبَ عَلَى يَمِينِهِ، فَغَسَلَهَا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِينَهُ فِي الْإِنَاءِ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ فِيهِمَا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پانی منگوایا، سب سے پہلے اسے بائیں ہاتھ پر ڈالا، پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 418]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 159، م: 226
حدیث نمبر: 419
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ دَعَا بِإِنَاءٍ... فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 419]
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهو مكرر ما قبله، وهذا إسناد ضعيف إبراهيم بن نصر ضعفوه بل كذبه بعضهم
حدیث نمبر: 420
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ مِنَ الْقَصْرِ، وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حِرَاءٍ إِذْ اهْتَزَّ الْجَبَلُ، فَرَكَلَهُ بِقَدَمِهِ، ثُمَّ قَالَ:" اسْكُنْ حِرَاءُ، لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ"، وَأَنَا مَعَهُ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، إِذْ بَعَثَنِي إِلَى الْمُشْرِكِينَ، إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ:" هَذِهِ يَدِي، وَهَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ"، فَبَايَعَ لِي؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يُوَسِّعُ لَنَا بِهَذَا الْبَيْتِ فِي الْمَسْجِدِ، بِبَيْتٍ لَهُ فِي الْجَنَّةِ؟"، فَابْتَعْتُهُ مِنْ مَالِي فَوَسَّعْتُ بِهِ الْمَسْجِدَ؟ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. قَالَ: وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ، قَالَ:" مَنْ يُنْفِقُ الْيَوْمَ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً؟" فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ. وَأَنْشُدُ بِاللَّهِ مَنْ شَهِدَ رُومَةَ يُبَاعُ مَاؤُهَا ابْنَ السَّبِيلِ، فَابْتَعْتُهَا مِنْ مَالِي، فَأَبَحْتُهَا لِابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالَ: فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر یوم حراء کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مبارک مار کر فرمایا: اے جبل حراء! ٹھہر جا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے، اس موقع پر میں موجود تھا؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر بیعت رضوان کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا؟ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر جیش عسرۃ (جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: آج کون خرچ کرے گا؟ اس کا دیا ہوا مقبول ہو گا، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر بیر رومہ کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کر دیا، کیا ایسا ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 420]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سلمة بن عبدالرحمن مختلف فى سماعه من عثمان، لكن صحح أحمد شاكر سماعه منه
حدیث نمبر: 421
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ تَوَضَّأَ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثًا، فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، ثُمَّ الْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ نَحْوًا مِنْ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے تین تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 421]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 159، م: 226
حدیث نمبر: 422
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ:" أَيُكَحِّلُ عَيْنَيْهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ أَوْ: بِأَيِّ شَيْءٍ يُكَحِّلُهُمَا وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ: أَنْ يُضَمِّدَهُمَا بِالصَّبِرِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يُحَدِّثُ ذَلِكَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کروایا کہ کیا محرم آنکھوں میں سرمہ لگا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 422]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1204
حدیث نمبر: 423
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ عَلِمَ أَنَّ الصَّلَاةَ حَقٌّ وَاجِبٌ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ نماز برحق اور واجب ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 423]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالملك بن عبيد
حدیث نمبر: 424
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنِي أبو معشر يعني البراء وَاسْمُهُ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ حَرْمَلَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: حَجَّ عُثْمَانُ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، أُخْبِرَ عَلِيٌّ : أَنَّ عُثْمَانَ نَهَى أَصْحَابَهُ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ، وَالْحَجِّ، فقال علي لأصحابه: إذا راح، فروحوا، فأهل علي وأصحابه بعمرة، فلم يكلمهم عثمان، فقال علي:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ التَّمَتُّعِ، أَلَمْ يَتَمَتَّعْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَمَا أَدْرِي مَا أَجَابَهُ عُثْمَانُ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے نکلے، جب راستے کا کچھ حصہ طے کر چکے تو کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا ہے، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: جب وہ روانہ ہوں تو تم بھی کوچ کرو، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ حج تمتع سے روکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع نہیں کیا تھا؟ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں کیا جواب دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 424]
حكم دارالسلام: صحيح، م: 1223، ابن حرملة مختلف فيه، روي له مسلم حديثاً واحداً فى القنوت متابعة
حدیث نمبر: 425
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَهُ مَوْلَاهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَذَا عُثْمَانُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٌ ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ طَلْحَةَ أَمْ لَا، يَسْتَأْذِنُونَ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمْ، ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَذَا الْعَبَّاسُ ، وَعَلِيٌّ ، يَسْتَأْذِنَانِ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَرِحْ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِهِ، فَقَدْ طَالَتْ خُصُومَتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"؟ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، وَقَالَ لَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي سَأُخْبِرُكُمْ عَنْ هَذَا الْفَيْءِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ غَيْرَهُ، فَقَالَ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، وَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ قَسَمَهَا بَيْنَكُمْ، وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ مِنْهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ، أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، عبدالرحمن، سعد اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے نجات عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس، علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال پوچھا: اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «وما افاء الله على رسول منهم فما او جفتم عليه من خيل ولا ركا ب» اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں اور میں اس میں وہی طریقہ اختیار کروں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 425]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2904، م: 1757
حدیث نمبر: 426
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ بْنِ مَنَّاحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ : أَنَّهُ رَأَى جَنَازَةً فَقَامَ إِلَيْهَا، وَقَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جَنَازَةً، فَقَامَ لَهَا".
ابان بن عثمان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے بھی اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 426]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يحيي بن سليم
حدیث نمبر: 427
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا ، وَعُثْمَانَ رضي الله عنهما، في يوم الفطر والنحر يصليان، ثم ينصرفان، فيذكران الناس، فسمعتهما يقولان:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ".
ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 427]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 428
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ الْجُنْدَعِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ يَتَوَضَّأُ، فَأَهْرَاقَ عَلَى يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ اسْتَنْثَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ مَعْمَرٍ.
حمران جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی بہایا، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ کلی کی اور مکمل حدیث ذکر کی جو پیچھے گزر چکی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 428]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 159، م: 226
حدیث نمبر: 429
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُثْمَانَ ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ كَيْفَ كَانَ وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: بَلَى،" فَدَعَا بِمَاءٍ، فَتَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأُذُنَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ تَحَرَّيْتُ لَكُمْ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے پاس موجود حضرات سے فرمایا کہ کیا میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ انہوں نے پانی منگوایا، تین مرتبہ کلی بھی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرے کو دھویا، تین تین مرتبہ دونوں بازؤوں کو دھویا، سر کا مسح کیا اور پاؤں دھوئے، پھر فرمایا کہ جان لو کہ کان سر کا حصہ ہیں پھر فرمایا: میں نے خوب احتیاط سے تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو پیش کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 429]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ولقول عثمان: (الأذنان من الرأس) شواهد مرفوعة، وهذا الإسناد ضعيف لجهالة الرجل من الأنصار وأبيه
حدیث نمبر: 430
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ الْأَعْرَابِيُّ ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوئِهِ تَبَسَّمَ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مِمَّا ضَحِكْتُ؟ قَالَ: فَقَالَ: تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ تَبَسَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ضَحِكْتُ؟" قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَتَمَّ وُضُوءَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ فَأَتَمَّ صَلَاتَهُ، خَرَجَ مِنْ صَلَاتِهِ كَمَا خَرَجَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ مِنَ الذُّنُوبِ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور فراغت کے بعد مسکرانے لگے اور فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو، میں کیوں ہنس رہا ہوں؟ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح وضو کیا تھا جیسے میں نے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے اور دریافت فرمایا تھا کہ کیا تم جانتے ہو، میں کیوں ہنس رہا ہوں؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: جب بندہ وضو کرتا ہے اور کامل وضو کر کے نماز شروع کرتا ہے اور کامل نماز پڑھتا ہے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایسے ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لے کر آیا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 430]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 431
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَقِيقٍ ، يَقُولُ:" كَانَ عُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَعَلِيٌّ يلبي بِهَا، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ قَوْلًا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ عُثْمَانُ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا كُنَّا خَائِفِينَ"، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: مَا كَانَ خَوْفُهُمْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي.
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کچھ کہا ہو گا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا ہے، پھر بھی اس سے روکتے ہیں؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 431]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1223
حدیث نمبر: 432
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ :" كَانَ عُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَعَلِيٌّ يَأْمُرُ بِهَا، فَقَالَ عُثْمَانُ لِعَلِيٍّ قَوْلًا، ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ : لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّا قَدْ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا كُنَّا خَائِفِينَ".
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کچھ کہا ہو گا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا ہے، پھر بھی اس سے روکتے ہیں؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 432]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح كسابقه
حدیث نمبر: 433
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى مِنْبَرِهِ: إِنِّي مُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ يَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ إِلَّا الضِّنُّ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" حَرَسُ لَيْلَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ لَيْلَةٍ يُقَامُ لَيْلُهَا، وَيُصَامُ نَهَارُهَا".
ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ایسا نہیں کہ بخل کی وجہ سے میں اسے تمہارے سامنے بیان نہ کروں گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہ داری کرنا ایک ہزار راتوں کے قیام لیل اور صیام نہار سے بڑھ کر افضل ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 433]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف مصعب بن ثابت، ولانقطاع بينه وبين عثمان
حدیث نمبر: 434
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے، اللہ اس کے لئے اسی طرح کا ایک گھر جنت میں تعمیر کر دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 434]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 450، م: 533
حدیث نمبر: 435
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا ، وَعُثْمَانَ يُصَلِّيَانِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، ثُمَّ يَنْصَرِفَانِ يُذَكِّرَانِ النَّاسَ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُمَا يَقُولَانِ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ". قَالَ: قَالَ: وسَمِعْت عَلِيًّا ، يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْقَى مِنْ نُسُكِكُمْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ بَعْدَ ثَلَاثٍ".
ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 435]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 436
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ دَارَةَ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: فَسَمِعَنِي أُمَضْمِضُ، قَالَ: فَقَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ وَهُوَ بِالْمَقَاعِدِ دَعَا بِوَضُوءٍ،" فَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابن دارہ کے پاس آیا، ان کے کانوں میں میرے کلی کرنے کی آواز گئی تو میرا نام لے کر مجھے پکارا، میں نے لبیک کہا، انہوں نے کہا کہ کیا میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کا طریقہ نہ بتاؤں؟ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بنچ پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جس میں انہوں نے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ اور تین تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، سر کا مسح تین مرتبہ (اور اکثر روایات کے مطابق ایک مرتبہ) کیا اور پاؤں دھو لیے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے، وہ جان لے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 436]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 437
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَفَّانُ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، فَدَخَلَ مَدْخَلًا كَانَ إِذَا دَخَلَهُ يَسْمَعُ كَلَامَهُ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، قَالَ: فَدَخَلَ ذَلِكَ الْمَدْخَلَ، وَخَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّهُمْ يَتَوَعَّدُونِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوْ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا"، فَوَاللَّهِ مَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، ہم ان کے ساتھ ہی تھے تھوڑی دیر کے لئے وہ کسی کمرے میں داخل ہوئے تو چوکی پر بیٹھنے والوں کو بھی ان کی بات سنائی دیتی تھی، اسی طرح ایک مرتبہ وہ اس کمرے میں داخل ہوئے، تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لا کر فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے مجھے ابھی ابھی قتل کی دھمکی دی ہے، ہم نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! اللہ ان کی طرف سے آپ کی کفایت و حفاظت فرمائے گا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے؟ جب کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کر دیا جائے، اللہ کی قسم! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں نے اس دین کے بدلے کسی دوسرے دین کو پسند نہیں کیا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 437]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 438
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، قَالَ: إِنِّي لَمَعَ عُثْمَانَ فِي الدَّارِ وَهُوَ مَحْصُورٌ، وَقَالَ: كُنَّا نَدْخُلُ مَدْخَلًا... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَهُ، أَوْ نَحْوَهُ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 438]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وانظر ما قبله
حدیث نمبر: 439
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكُمْ، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِي، نَشَدْتُكُمْ اللَّهَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْثِرُ قُرَيْشًا عَلَى سَائِرِ النَّاسِ، وَيُؤْثِرُ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى سَائِرِ قُرَيْشٍ؟ فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: لَوْ أَنَّ بِيَدِي مَفَاتِيحَ الْجَنَّةِ لَأَعْطَيْتُهَا بَنِي أُمَيَّةَ حَتَّى يَدْخُلُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَى طَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَلَا أُحَدِّثُكُمَا عَنْهُ، يَعْنِي عَمَّارًا؟ أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِيَدِي نَتَمَشَّى فِي الْبَطْحَاءِ، حَتَّى أَتَى عَلَى أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَعَلَيْهِ يُعَذَّبُونَ، فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الدَّهْرَ هَكَذَا؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اصْبِرْ"، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِآلِ يَاسِرٍ، وَقَدْ فَعَلْتُ".
سالم بن ابی الجعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایاجن میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے چند باتوں کی تصدیق کروانا چاہتا ہوں، میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت قریش کو ترجیح دیتے تھے اور بنو ہاشم کو تمام قریش پر؟ لوگ خاموش رہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی چابیاں ہوں تو میں وہ بنو امیہ کو دے دوں تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہو جائیں (قرابت داروں سے تعلق ہونا ایک فطری چیز ہے، یہ دراصل اس سوال کا جواب تھا جو لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کے سلسلے میں کرتے تھے) اس کے بعد انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو ان کی یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی کچھ باتیں بتاؤں؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے والدین کے پاس جا پہنچے، وہاں انہیں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں، عمار کے والد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: صبر کرو، پھر دعاء فرمائی اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما، میں بھی اب صبر کر رہا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 439]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، سالم بن أبى الجعد لم يدرك عثمان. ولقوله : (اللهم اغفر لآل ياسر...) شاهد صحيح من حديث جابر
حدیث نمبر: 440
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُّ شَيْءٍ سِوَى ظِلِّ بَيْتٍ، وَجِلْفِ الْخُبْزِ، وَثَوْبٍ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَالْمَاءِ، فَمَا فَضَلَ عَنْ هَذَا فَلَيْسَ لِابْنِ آدَمَ فِيهِ حَقٌّ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گھر کے سائے، خشک روٹی کے ٹکڑے، شرمگاہ کو چھپانے کی بقدر کپڑے اور پانی کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی انسان کا استحقاق نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 440]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف وهو منكر
حدیث نمبر: 441
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ ثَقِيفٍ ذَكَرَهُ حُمَيْدٌ بِصَلَاحٍ، ذَكَرَ أَنَّ عَمَّهُ أخْبَرَهُ: أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ جَلَسَ عَلَى الْبَابِ الثَّانِي مِنْ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بِكَتِفٍ فَتَعَرَّقَهَا، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، ثُمَّ قَالَ:" جَلَسْتُ مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ مَا أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَنَعْتُ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مسجد کے باب ثانی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے شانے کا گوشت منگوایا اور اس کی ہڈی سے گوشت اتار کر کھانے لگے، پھر یوں ہی کھڑے ہو کر تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی اور فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کھایا، وہی کھایا اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، وہی میں نے بھی کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 441]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الشيخ من ثقيف وعمه
حدیث نمبر: 442
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بِمِنًى، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ، فَلْيُرَابِطْ امْرُؤٌ كَيْفَ شَاءَ"، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ.
ایک مرتبہ ایام حج میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: لوگو! میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن کی چوکیداری عام حالات میں ایک ہزار دن سے افضل ہے، اس لئے جو شخص جس طرح چاہے، اس میں حصہ لے، یہ کہہ کر آپ نے فرمایا: کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 442]
حكم دارالسلام: حديث حسن، عبدالله بن لهيعة قد توبع
حدیث نمبر: 443
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ يَعْنِي مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ صَلَّى بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَأَنْكَرَهُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَأَهَّلْتُ بِمَكَّةَ مُنْذُ قَدِمْتُ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَأَهَّلَ فِي بَلَدٍ، فَلْيُصَلِّ صَلَاةَ الْمُقِيمِ".
ایک مرتبہ ایام حج میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعتیں پڑھا دیں، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! میں مکہ مکرمہ میں آ کر مقیم ہو گیا تھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں مقیم ہو جائے، وہ مقیم والی نماز پڑھے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 443]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عكرمة بن إبراهيم وعبدالرحمن بن أبى ذباب
حدیث نمبر: 444
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: كُنْتُ أَبْتَاعُ التَّمْرَ مِنْ بَطْنٍ مِنَ الْيَهُودِ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو قَيْنُقَاعَ، فَأَبِيعُهُ بِرِبْحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، إِذَا اشْتَرَيْتَ فَاكْتَلْ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: عثمان! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 444]
حكم دارالسلام: حديث حسن، فإنه من قديم حديث ابن لهيعة
حدیث نمبر: 445
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 445]
حكم دارالسلام: حسن، هو مكرر ما قبله
حدیث نمبر: 446
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی «بسم الله الذى لا يضر مع اسمه شيء فى الارض ولا فى السماء وهو السميع العليم» ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 446]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 447
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْخَفَّافُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ حَقًّا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حُرِّمَ عَلَى النَّارِ" فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَنَا أُحَدِّثُكَ مَا هِيَ؟ هِيَ كَلِمَةُ الْإِخْلَاصِ الَّتِي أَعَزَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، وَهِيَ كَلِمَةُ التَّقْوَى الَّتِي أَلَاصَ عَلَيْهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّهُ أَبَا طَالِبٍ عِنْدَ الْمَوْتِ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ بھی اسے دل سے حق سمجھ کر کہے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو بتاؤں، وہ کلمہ کون سا ہے؟ وہ کلمہ اخلاص ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر لازم کیا تھا، یہ وہی کلمہ تقویٰ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کے سامنے ان کی موت کے وقت بار بار پیش کیا تھا، یعنی اللہ کی وحدانیت کی گواہی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 447]
حكم دارالسلام: إسناده قوي
حدیث نمبر: 448
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ امْرَأَتَهُ وَلَمْ يُمْنِ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ :" يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ"، وَقَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ ، وَطَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَأَمَرُوهُ بِذَلِكَ.
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جس طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے، ایسا ہی وضو کر لے اور اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا: تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 448]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 179، م: 347، وهذا الحديث منسوخ بحديث أبى بن كعب وأبي هريرة وعائشة
حدیث نمبر: 449
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ سورة الأنعام آية 83، قَالَ: بِالْعِلْمِ"، قُلْتُ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: زَعَمَ ذَاكَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ .
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی «نرفع درجات من نشاء» کا مطلب یہ ہے کہ علم کے ذریعے ہم جس کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں، کر دیتے ہیں، میں نے پوچھا کہ یہ مطلب آپ سے کس نے بیان کیا؟ فرمایا: زید بن اسلم نے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 449]
حكم دارالسلام: ليس ذا بحديث إنما هو أثر عن زيد بن أسلم التابعي، وإسناده صحيح
حدیث نمبر: 450
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا مَسَرَّةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي كَبْشَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي صَلَّيْتُ فَلَمْ أَدْرِ أَشَفَعْتُ أَمْ أَوْتَرْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّايَ وَأَنْ يَتَلَعَّبَ بِكُمْ الشَّيْطَانُ فِي صَلَاتِكُمْ، مَنْ صَلَّى مِنْكُمْ فَلَمْ يَدْرِ أَشَفَعَ أَوْ أَوْتَرَ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ، فَإِنَّهُمَا تَمَامُ صَلَاتِهِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ میں نے جفت عدد میں رکعتیں پڑھیں یا طاق عدد میں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو اس بات سے بچاؤ کہ دوران نماز شیطان تم سے کھیلنے لگے، اگر تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے جفت اور طاق کا پتہ نہ چل سکے تو اسے سہو کے دو سجدے کر لینے چاہئیں، کہ ان دونوں سے نماز مکمل ہو جاتی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 450]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف بالانقطاع، يزيد بن أبى كبشة لم يسمعه من عثمان، والواسطة بينهما مروان كما فى الرواية التالية
حدیث نمبر: 451
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَوَّارٌ أَبُو عُمَارَةَ الرَّمْلِيّ ، عَنْ مَسَرَّةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ الْعَصْرَ، فَانْصَرَفَ إِلَيْنَا بَعْدَ صَلَاتِهِ، فَقَالَ: إِنِّي صَلَّيْتُ مَعَ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ ، فَسَجَدَ مِثْلَ هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا، فَأَعْلَمَنَا أَنَّهُ صَلَّى مَعَ عُثْمَانَ ، وَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَذَكَرَ مِثْلَهُ نَحْوَهُ.
مسیرہ بن معبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں یزید بن ابی کبشہ نے عصر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد وہ ہماری طرف رخ کر کے بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں نے مروان بن حکم کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے بھی اسی طرح دو سجدے کئے اور ہماری طرف رخ کر کے بتایا کہ انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 451]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 452
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُغِيرَةَ بْنَ مُسْلِمٍ أَبَا سَلَمَةَ يَذْكُرُ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَى أَصْحَابِهِ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: عَلَامَ تَقْتُلُونِي؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، فَعَلَيْهِ الرَّجْمُ، أَوْ قَتَلَ عَمْدًا، فَعَلَيْهِ الْقَوَدُ، أَوْ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، فَعَلَيْهِ الْقَتْلُ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَلَا قَتَلْتُ أَحَدًا فَأُقِيدَ نَفْسِي مِنْهُ، وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، انہوں نے لوگوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمانے لگے بھلا کس جرم میں تم لوگ مجھے قتل کرو گے؟ جب کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کر دیا جائے، اللہ کی قسم! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں کبھی مرتد نہیں ہوا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، جس کا مجھ سے قصاص لیا جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 452]
حكم دارالسلام: حسن، مطر الورق - وإن تكلموا فى حفظه - حسن الحديث فى المتابعات والشواهد
حدیث نمبر: 453
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو قَبِيلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْدَادِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ : أَنَّهُ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَأَذِنَ لَهُ وَبِيَدِهِ عَصَاهُ، فَقَالَ عُثْمَانُ : يَا كَعْبُ، إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ مَالًا، فَمَا تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ: إِنْ كَانَ يَصِلُ فِيهِ حَقَّ اللَّهِ، فَلَا بَأْسَ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ أَبُو ذَرٍّ عَصَاهُ، فَضَرَبَ كَعْبًا، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا أُحِبُّ لَوْ أَنَّ لِي هَذَا الْجَبَلَ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ وَيُتَقَبَّلُ مِنِّي، أَذَرُ خَلْفِي مِنْهُ سِتَّ أَوَاقٍ"، أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ، أَسَمِعْتَهُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ؟ قَالَ: نَعَمْ.
مالک بن عبداللہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اجازت لے کر آئے، انہوں نے اجازت دے دی، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے کعب! عبدالرحمن فوت ہو گئے ہیں اور اپنے ترکہ میں مال چھوڑ گئے ہیں، اس مسئلے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس کے ذریعے حقوق اللہ ادا کرتے تھے تو کوئی حرج نہیں، سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے اپنی لاٹھی اٹھا کر انہیں مارنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس اس پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے پیچھے اس میں سے چھ اوقیہ بھی چھوڑ دوں، میں اسے خرچ کر دوں گا تاکہ وہ قبول ہو جائے، اے عثمان! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ نے بھی یہ ارشاد سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 453]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لھیعتہ وجھالتہ مالک بن عبداللہ الهيعة وجهالة مالك بن عبدالله
حدیث نمبر: 454
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ الْقَاصُّ ، عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى، حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ فَلَا تَبْكِي، وَتَبْكِي مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقَبْرُ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ يَنْجُ مِنْهُ، فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ، فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ"، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ، إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ".
ہانی جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کسی قبر پر رکتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی، کسی نے ان سے پوچھا کہ جب آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہیں، تب تو نہیں روتے اور اس سے رو پڑتے ہیں؟ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہاں نجات مل گئی تو بعد کے سارے مراحل آسان ہو جائیں گے اور اگر وہاں نجات نہ ملی تو بعد کے سارے مراحل دشوار ہو جائیں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے جتنے بھی مناظر دیکھے ہیں، قبر کا منظر ان سب سے ہولناک ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 454]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 455
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَرْوَانَ ، وَمَا إِخَالُهُ يُتَّهَمُ عَلَيْنَا، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ رُعَافٌ سَنَةَ الرُّعَافِ، حَتَّى تَخَلَّفَ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى، فدخل عليه رجل من قريش، فقال: استخلف، قَالَ: وَقَالُوهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لَهُ الْأَوَّلُ، وَرَدَّ عَلَيْهِ نَحْوَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ عُثْمَانُ : قَالُوا الزُّبَيْرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنْ كَانَ لَخَيْرَهُمْ مَا عَلِمْتُ، وَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مروان سے روایت ہے کہ عام الرعاف میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ناک سے ایک مرتبہ بہت خون نکلا (جسے نکسیر پھوٹنا کہتے ہیں) یہاں تک کہ وہ حج کے لئے بھی نہ جا سکے اور زندگی کی امید ختم کر کے وصیت بھی کر دی، اس دوران ایک قریشی آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دیجئے، انہوں نے پوچھا: کیا لوگوں کی بھی یہی رائے ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! انہوں نے پوچھا کہ کن لوگوں کی یہ رائے ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا، اس نے بھی پہلے آدمی کی باتیں دہرائیں اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے بھی وہی جواب دئیے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ لوگوں کی رائے کسے خلیفہ بنانے کی ہے؟ اس نے کہا: سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو، فرمایا: ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میرے علم کے مطابق وہ سب سے بہتر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 455]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3717
حدیث نمبر: 456
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَاه سُوَيْدٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ.
گزشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گزری۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 456]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سويد- وإن كان فيه كلام - قد تابعه زكريا بن عدي فى الحديث الذى قبله
حدیث نمبر: 457
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَكَرِيَّا ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مَنَّاحٍ ، قَالَ: رَأَى أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ جَنَازَةً، فَقَامَ لَهَا، وَقَالَ:" رَأَى عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ جَنَازَةً فَقَامَ لَهَا، ثُمَّ حَدَّثَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جَنَازَةً، فَقَامَ لَهَا".
ابان بن عثمان رحمہ اللہ نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہو گئے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 457]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، زكريا بن أبى زكريا مترجم فى التعجيل ، وقال عنه: مجهول
حدیث نمبر: 458
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ : أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ: قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَلَمْ يُمْنِ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ :" يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ"، قَالَ: وَقَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، وَالزُّبَيْرَ ، وَطَلْحَةَ ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَأَمَرُوهُ بِذَلِكَ.
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جس طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے، ایسا ہی وضو کر لے اور اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا: تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 458]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 179، م: 347، وهو منسوخ
حدیث نمبر: 459
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُعَاذُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَقَاعِدِ، فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي هَذَا الْمَجْلِسِ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَلَا تَغْتَرُّوا".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے خوب اچھی طرح وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ بہترین انداز میں وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا دھوکے کا شکار نہ ہو جانا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 459]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 460
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ بْنِ عُمَرَ التَّيْمِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمِّي عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ مُوسَى ، يَقُولُ: كُنْتُ عِنْدَ سُلَيْمَانَ بْنِ عَلِيٍّ، فَدَخَلَ شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ سُلَيْمَانُ: انْظُرْ إِلَى الشَّيْخِ، فَأَقْعِدْهُ مَقْعَدًا صَالِحًا، فَإِنَّ لِقُرَيْشٍ حَقًّا، فَقُلْتُ: أَيُّهَا الْأَمِيرُ، أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَهَانَ قُرَيْشًا أَهَانَهُ اللَّهُ"، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذَا، مَنْ حَدَّثَكَ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ: حَدَّثَنِيهِ رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ لِي أَبِي : يَا بُنَيَّ، إِنْ وَلِيتَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَيْئًا، فَأَكْرِمْ قُرَيْشًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَهَانَ قُرَيْشًا أَهَانَهُ اللَّهُ".
عبیداللہ بن عمیر کہتے ہیں کہ میں سلیمان بن علی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں قریش کے ایک بزرگ تشریف لائے، سلیمان نے کہا: دیکھو! شیخ کو اچھی جگہ بٹھاؤ کیونکہ قریش کا حق ہے، میں نے کہا: گورنر صاحب! کیا میں آپ کو ایک حدیث سناؤں جو قریش کی توہین کرتا ہے، گویا وہ اللہ کی توہین کرتا ہے، اس نے کہا: سبحان اللہ! کیا خوب، یہ روایت تم سے کس نے بیان کی ہے؟ میں نے کہا: ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے حوالے سے، انہوں نے عمرو بن عثمان کے حوالے سے کہ میرے والد نے مجھ سے فرمایا: بیٹا! اگر تمہیں کسی جگہ کی امارت ملے تو قریش کی عزت کرنا کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو قریش کی اہانت کرتا ہے، گویا وہ اللہ کی اہانت کرتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 460]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، محمد بن حفص والد عبيد الله وعمه عبيدالله بن عمر لم يوثقهما غير ابن حبان
حدیث نمبر: 461
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ حِينَ حُصِرَ: إِنَّ عِنْدِي نَجَائِبَ قَدْ أَعْدَدْتُهَا لَكَ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيَكَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَكَ؟ قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُلْحَدُ بِمَكَّةَ كَبْشٌ مِنْ قُرَيْشٍ، اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ، عَلَيْهِ مِثْلُ نِصْفِ أَوْزَارِ النَّاسِ".
ابن ابزی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ شروع ہوا تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا کہ میرے پاس بہترین قسم کے اونٹ ہیں جنہیں میں نے آپ کے لئے تیار کر دیا ہے، آپ ان پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ تشریف لے چلیں، جو آپ کے پاس آنا چاہے گا، وہیں آ جائے گا؟ لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکہ مکرمہ میں قریش کا ایک مینڈھا الحاد پھیلائے گا جس کا نام عبداللہ ہو گا، اس پر لوگوں کے گناہوں کا آدھا بوجھ ہو گا۔ (میں وہ مینڈھا نہیں بننا چاہتا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 461]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، و متنه منكر شبه موضوع
حدیث نمبر: 462
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ مَطَرٍ ، وَيَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ، وَلَا يُنْكِحُ، وَلَا يَخْطُبُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے، بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 462]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1409، إسناده من طريق يعلى بن حكيم صحيح، ومطر الوراق - وإن كان فيه كلام - قد توبع
حدیث نمبر: 463
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ بن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى مِنْبَرِهِ: إِنِّي مُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِهِ إِلَّا الضِّنُّ بِكُمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" حَرَسُ لَيْلَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ لَيْلَةٍ يُقَامُ لَيْلُهَا، وَيُصَامُ نَهَارُهَا".
ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ایسا نہیں کہ بخل کی وجہ سے میں اسے تمہارے سامنے بیان نہ کروں گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہ داری کرنا ایک ہزار راتوں کے قیام لیل اور صیام نہار سے بڑھ کر افضل ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 463]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف مصعب بن ثابت
حدیث نمبر: 464
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدًا ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ الْعنبري ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اس حال میں مرا کہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 464]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 26
حدیث نمبر: 465
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنِي نُبَيْهُ بْنُ وَهْبٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ رَمِدَتْ عَيْنُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَأَرَادَ أَنْ يُكَحِّلَهَا، فَنَهَاهُ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُضَمِّدَهَا بِالصَّبِرِ، وَزَعَمَ أَنَّ عُثْمَانَ حدث عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ.
عمر بن عبیداللہ کو حالت احرام میں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہو گیا، انہوں نے آنکھوں میں سرمہ لگانا چاہا تو سیدنا ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا اور کہا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 465]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1204
حدیث نمبر: 466
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ أَرَادَ أَنْ يُزَوِّجَ ابْنَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَنَهَاهُ أَبَانُ، وَزَعَمَ أَنَّ عُثْمَانَ حدث عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُحْرِمُ لَا يَنْكِحُ، وَلَا يُنْكِحُ".
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ نے حالت احرام میں اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہا تو سیدنا ابان رحمہ اللہ نے اسے روک دیا اور بتایا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 466]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م 1409
حدیث نمبر: 467
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَبَاحٍ ، قَالَ: زَوَّجَنِي أَهْلِي أَمَةً لَهُمْ رُومِيَّةً، وَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ، فَعَلِقَهَا عَبْدٌ رُومِيٌّ، يُقَالُ لَهُ: يُوحَنَّسُ، فَجَعَلَ يُرَاطِنُهَا بِالرُّومِيَّةِ، فَحَمَلَتْ، وَقَدْ كَانَتْ وَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَجَاءَتْ بِغُلَامٍ وَكَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا هَذَا؟ فَقَالَتْ: هُوَ مِنْ يُوحَنَّسَ، فَسَأَلْتُ يُوحَنَّسَ، فَاعْتَرَفَ، فَأَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَسَأَلَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: سَأَقْضِي بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، فَأَلْحَقَهُ بِي، قَالَ: فَجَلَدَهُمَا، فَوَلَدَتْ لِي بَعْدُ غُلَامًا أَسْوَدَ.
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کر دی، میں اس کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہو گیا، میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہو گیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہو گیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کر لیا، چنانچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا، میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستر والے کا ہو گا اور زانی کے لئے پتھر ہیں، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا نسب نامہ مجھ سے ثابت کر دیا اور ان دونوں کو کوڑے مارے اور اس کے بعد بھی اس کے یہاں میرا ایک بیٹاپیدا ہوا جو کالا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 467]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة رباح
حدیث نمبر: 468
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عُثْمَانَ فِي الدَّارِ وَهُوَ مَحْصُورٌ، قَالَ: وَكُنَّا نَدْخُلُ مَدْخَلًا إِذَا دَخَلْنَاهُ سَمِعْنَا كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، قَالَ: فَدَخَلَ عُثْمَانُ يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا مُنْتَقِعًا لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَعَّدُونِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: فَقَالَ: وَبِمَ يَقْتُلُونِي؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّهُ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوْ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَلَا تَمَنَّيْتُ بَدَلًا بِدِينِي مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونِي؟.
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، میں ان کے ساتھ ہی تھا تھوڑی دیر کے لئے ہم کسی کمرے میں داخل ہوتے تو چوکی پر بیٹھنے والوں کی بات بھی سنائی دیتی تھی، اسی طرح ایک مرتبہ وہ اس کمرے میں داخل ہوئے، تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لائے تو ان کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے مجھے ابھی ابھی قتل کی دھمکی دی ہے، ہم نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! اللہ ان کی طرف سے آپ کی کفایت و حفاظت فرمائے گا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے؟ جب کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کر دیا جائے، اللہ کی قسم! مجھے تو اللہ نے جب سے ہدایت دی ہے، میں نے اس دین کے بدلے کسی دوسرے دین کو پسند نہیں کیا، میں نے اسلام تو بڑی دور کی بات ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی بدکاری نہیں کی اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 468]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 469
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ . ح وَسُرَيْجٌ ، وَحُسَيْنٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ حُسَيْنُ: ابْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، يَقُولُ: مَا يَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ أَوْعَى أَصْحَابِهِ عَنْهُ، وَلَكِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"، وَقَالَ حُسَيْنٌ: أَوْعَى صَحَابَتِهِ عَنْهُ.
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں تم سے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بکثرت بیان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں یاد نہیں رکھ سکا، بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہیے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 469]
حكم دارالسلام: إسناده حسن والحديث متواتر
حدیث نمبر: 470
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ".
ابوصالح جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو منبر پر دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو! میں نے اب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی تاکہ تم لوگ مجھ سے جدا نہ ہو جاؤ لیکن اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم سے بیان کر دوں تاکہ ہر آدمی جو مناسب سمجھے، اسے اختیار کر لے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک دن کی پہرہ داری، دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 470]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 471
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ، يُرِيدُ سَفَرًا أَوْ غَيْرَهُ، فَقَالَ حِينَ يَخْرُجُ: بِسْمِ اللَّهِ، آمَنْتُ بِاللَّهِ، اعْتَصَمْتُ بِاللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، إِلَّا رُزِقَ خَيْرَ ذَلِكَ الْمَخْرَجِ، وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّ ذَلِكَ الْمَخْرَجِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان اپنے گھر سے نکلتے وقت خواہ سفر کے ارادے سے یا ویسے ہی یہ دعا پڑھ لے «بسم الله آمنت بالله، اعتصمت بالله، توكلت على الله لاحول ولاقوة الا بالله»، تو اسے اس کی خیر عطاء فرمائی جائے گی اور اس نکلنے کے شر سے اس کی حفاظت کی جائے گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 471]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الذى روى عنه صالح بن كيسان
حدیث نمبر: 472
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ غَسْلًا".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو اچھی طرح دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 472]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج مدلس وقد عنعن، وعطاء لم يدرك عثمان
حدیث نمبر: 473
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرَةَ جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ أَبَا بُرْدَةَ فِي مَسْجِدِ الْبَصْرَةِ، وَأَنَا قَائِمٌ مَعَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے، تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 473]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 231
حدیث نمبر: 474
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ فِي أَوَّلِ يَوْمِهِ، أَوْ فِي أَوَّلِ لَيْلَتِهِ: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، أَوْ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دن یا رات کے آغاز میں یہ دعا تین مرتبہ پڑھ لیا کرے اسے اس دن یا رات میں کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ «بسم الله الذى لا يضر مع اسمه شيء فى الارض و لا فى السماء وهو السميع العليم» ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 474]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 475
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا أَبُو سِنَانٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مَوْهَبٍ : أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ : اقْضِ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: لَا أَقْضِي بَيْنَ اثْنَيْنِ، وَلَا أَؤُمُّ رَجُلَيْنِ، أَمَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ عَاذَ بِاللَّهِ، فَقَدْ عَاذَ بِمَعَاذٍ"، قَالَ عُثْمَانُ: بَلَى، قَالَ: فَإِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تَسْتَعْمِلَنِي، فَأَعْفَاهُ، وَقَالَ: لَا تُخْبِرْ بِهَذَا أَحَدًا.
یزید بن موہب کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو قاضی بننے کی پیشکش کی، انہوں نے فرمایا کہ میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کروں گا اور نہ ہی امامت کروں گا، کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا، جو اللہ کی پناہ میں آ جائے وہ مکمل طور پر محفوظ ہو جاتا ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں! اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی عہدہ دیں، چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور فرمایا کسی کو اس بارے میں مت بتائیے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 475]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناده ضعيف لضعف أبى سنان
حدیث نمبر: 476
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح کرے تو اس کے جسم سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں، حتی کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 476]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 245
حدیث نمبر: 477
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَاه سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، سَنَةَ سِتٍّ وَعِشْرِينَ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، أَنَّ عُثْمَانَ ، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، هَجِّرُوا فَإِنِّي مُهَجِّرٌ، فَهَجَّرَ النَّاسُ، ثُمّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي مُحَدِّثُكُمْ بِحَدِيثٍ مَا تَكَلَّمْتُ بِهِ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ رِبَاطَ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ مِمَّا سِوَاهُ، فَلْيُرَابِطْ امْرُؤٌ حَيْثُ شَاءَ"، هَلْ بَلَّغْتُكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ.
ابوصالح جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! روانہ ہو جاؤ کیونکہ میں بھی روانہ ہونے لگا ہوں، لوگ روانہ ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے اب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایک دن کی پہرہ داری دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے، اس لئے جو شخص چاہے وہ پہرہ داری کرے، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 477]
حكم دارالسلام: حديث حسن ، وهذا إسناد ضعيف، سويد بن سعيد مختلف فيه، ورشدين بن سعد ضعيف
حدیث نمبر: 478
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمْرَانَ ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ قَاعِدًا فِي الْمَقَاعِدِ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فِي مَقْعَدِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَغْتَرُّوا".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پانی منگوا کر خوب اچھی طرح وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ بہترین انداز میں وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: دھوکے کا شکار نہ ہو جانا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 478]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 479
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْذِرِ ، أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: هَلْ أَنْتَ مُنْتَهٍ عَمَّا بَلَغَنِي عَنْكَ؟ فَاعْتَذَرَ بَعْضَ الْعُذْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ : وَيْحَكَ، إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ وَحَفِظْتُ وَلَيْسَ كَمَا سَمِعْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" سَيُقْتَلُ أَمِيرٌ وَيَنْتَزِي مُنْتَزٍ"، وَإِنِّي أَنَا الْمَقْتُولُ، وَلَيْسَ عُمَرَ، إِنَّمَا قَتَلَ عُمَرَ وَاحِدٌ، وَإِنَّهُ يُجْتَمَعُ عَلَيَّ.
ابوعون انصاری کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ آپ کے حوالے سے مجھے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، آپ ان سے رک جائیے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے کچھ عذر پیش کئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افسوس! میں نے اس بات کو سنا بھی ہے اور محفوظ بھی کیا ہے خواہ آپ نے نہ سنا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ایک حکمران قتل کیا جائے گا اور شر پھیلانے والے اس میں جلد بازی کریں گے، یاد رکھو! وہ مقتول ہونے والا امیر میں ہی ہوں، اس سے مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہیں ہیں، کیونکہ انہیں تو صرف ایک آدمی نے شہید کیا تھا، جب کہ مجھ پر یہ سب مل کر حملہ کرنے والے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 479]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو عون الأنصاري لم يوثقه غير ابن حبان وروايته عن عثمان مرسلة
حدیث نمبر: 480
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، قَالَ لَهُ: ابْنَ أَخِي، أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، وَلَكِنْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ، وَالْيَقِينِ مَا يَخْلُصُ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا، قَالَ: فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَآمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ كَمَا قُلْتُ، وَنِلْتُ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا بھتیجے! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں! البتہ ان کے حوالے سے خالص معلومات اور ایسا یقین ضرور میرے پاس ہیں جو کنواری دوشیزہ کو اپنے پردے میں ہوتا ہے، اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حمد و ثناء اور اقرار شہادتین کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں بھی تھا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لانے والوں میں، میں بھی تھا، پھر میں نے حبشہ کی طرف دونوں مرتبہ ہجرت کی، مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت بھی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ ہی دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 480]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3696
حدیث نمبر: 481
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَزَلَ بِكَ مَا تَرَى، وَإِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْكَ خِصَالًا ثَلَاثًا، اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ: إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَهُمْ، فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً، وَأَنْتَ عَلَى الْحَقِّ، وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَكَ بَابًا سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ، فَتَقْعُدَ عَلَى رَوَاحِلِكَ، فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ عُثْمَانُ : أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ، فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلَى مَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّونِي بِهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ، يَكُونُ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ"، فَلَنْ أَكُونَ أَنَا إِيَّاهُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي، وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے، ان دنوں باغیوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آکر عرض کیا کہ آپ مسلمانوں کے عمومی حکمران ہیں، آپ پر جو پریشانیاں آ رہی ہیں، وہ بھی نگاہوں کے سامنے ہیں، میں آپ کے سامنے تین درخواستیں رکھتا ہوں، آپ کسی ایک کو اختیار کر لیجئے، یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کریں، آپ کے پاس افراد بھی ہیں، طاقت بھی ہے اور آپ برحق بھی ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں، یا جس دروازے پر یہ لوگ کھڑے ہیں، آپ اسے چھوڑ کر اپنے گھر کی دیوار توڑ کر کوئی دوسرا دروازہ نکلوائیں، سواری پر بیٹھیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں، جب آپ وہاں ہوں گے تو یہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، یا پھر آپ شام چلے جائیے کیونکہ وہاں اہل شام کے علاوہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ میں باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کروں، تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سب سے پہلا وہ آدمی ہرگز نہیں بنوں گا جو امت میں خونریزی کرے، رہی یہ بات کہ میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں تو یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کا ایک آدمی مکہ مکرمہ میں الحاد پھیلائے گا، اس پر اہل دنیا کو ہونے والے عذاب کا نصف عذاب دیا جائے گا، میں وہ آدمی نہیں بننا چاہتا اور جہاں تک شام جانے والی بات ہے کہ وہاں اہل شام کے علاوہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں تو میں دارالہجرۃ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 481]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، محمد بن عبدالملك لم يثبت سماعه من المغيرة
حدیث نمبر: 482
حَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: يُلْحِدُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 482]
حكم دارالسلام: ضعيف كسابقه، ابن المبارك : هو عبدالله ، وهو يرويه عن الاوزاعي
حدیث نمبر: 483
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، وَيُونُسُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ حَجَّاجٌ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، وَنَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ مَشَى إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَصَلَّاهَا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 483]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 484
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ حُمْرَانَ ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ يَغْتَسِلُ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّةً مِنْ مُنْذُ أَسْلَمَ، فَوَضَعْتُ وَضُوءًا لَهُ ذَاتَ يَوْمٍ لِلصَّلَاةِ، فَلَمَّا تَوَضَّأَ، قَالَ: إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بَدَا لِي أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمُوهُ، فَقَالَ الْحَكَمُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنْ كَانَ خَيْرًا فَنَأْخُذُ بِهِ، أَوْ شَرًّا فَنَتَّقِيهِ، قَالَ: فَقَالَ: فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ بِهِ: تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَوَضَّأَ هَذَا الْوُضُوءَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهَا وَسُجُودَهَا، كَفَّرَتْ عَنْهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الْأُخْرَى، مَا لَمْ يُصِبْ مَقْتَلَةً" يَعْنِي: كَبِيرَةً.
حمران کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا تھا، ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ نہایا کرتے تھے، ایک دن نماز کے لئے میں نے وضو کا پانی رکھا، جب وہ وضو کر چکے تو فرمانے لگے کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کرنا چاہتا تھا، پھر میں نے سوچا کہ نہ بیان کروں، یہ سن کر حکم بن ابی العاص نے کہا کہ امیر المؤمنین! بیان کر دیں، اگر خیر کی بات ہو گی تو ہم بھی اس پر عمل کر لیں گے اور اگر شر کی نشاندہی ہو گی، تو ہم بھی اس سے بچ جائیں گے، فرمایا: میں تم سے یہ حدیث بیان کرنے لگا تھا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا اور فرمایا: جو شخص اس طرح وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر نماز کے لئے کھڑا ہو اور رکوع و سجود کو اچھی طرح مکمل کرے تو یہ وضو اگلی نماز تک اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، بشرطیکہ کسی گناہ کبیرہ کا ارتکا ب نہ کرے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 484]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 228، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 485
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَدْخَلَ اللَّهُ الْجَنَّةَ رَجُلًا كَانَ سَهْلًا قَاضِيًا وَمُقْتَضِيًا، وَبَائِعًا، وَمُشْتَرِيًا".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا، جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 485]
حكم دارالسلام: حديث حسن، عطاء بن فروخ روى عنه أثنان، ولم يوثقة غير ابن حبان، وذكر على بن المديني فى العلل أنه لم يلق عثمان
حدیث نمبر: 486
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: أَنَّ الْمُؤَذِّنَ أَذَّنَ لِصَلَاةِ الْعَصْرِ، قَالَ: فَدَعَا عُثْمَانُ بِطَهُورٍ فَتَطَهَّرَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَطَهَّرَ كَمَا أُمِرَ، وَصَلَّى كَمَا أُمِرَ، كُفِّرَتْ عَنْهُ ذُنُوبُهُ"، فَاسْتَشْهَدَ عَلَى ذَلِكَ أَرْبَعَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَشَهِدُوا لَهُ بِذَلِكَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ایک مرتبہ جب مؤذن نے عصر کی اذان دی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لئے پانی منگوایا، وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص حکم الٰہی کے مطابق وضو کرے، وہ اس کے سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اس کے بعد انہوں نے چار صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس پر گواہی لی اور چاروں نے اس بات کی گواہی دی کہ واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 486]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وله شاهد من حديث أبى أيوب الآتي، برقم:23595، وهذا إسناد ضعيف ، إبراهيم بن المهاجر فيه لين، والرجل من أهل المدينة مجهول
حدیث نمبر: 487
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ الْأَشْجَعِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَتَى عُثْمَانُ الْمَقَاعِدَ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ،" فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا يَتَوَضَّأُ، يَا هَؤُلَاءِ: أَكَذَاكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ".
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، پھر سر اور پاؤں کا تین تین مرتبہ مسح کیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا: کیا ایسا ہی ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 487]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، م: 230
حدیث نمبر: 488
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : أَنَّهُ دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ عِنْدَ الْمَقَاعِدِ،" فَتَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ رَأَيْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ"، قَالَ أَبِي: هَذَا الْعَدَنِيُّ كَانَ بِمَكَّةَ مُسْتَمْلِيَ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بنچوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے، وضو کا پانی منگوایا اور تمام اعضاء کو تین تین مرتبہ دھویا اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم جو وہاں موجود تھے، ان سے فرمایا: کیا ایسا ہی ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 488]
حكم دارالسلام: حديث صحيح كسابقه ، وإسناده قوي
حدیث نمبر: 489
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دَعَا بِوَضُوءٍ وَهُوَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ، وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَأَمَرَّ بِيَدَيْهِ عَلَى ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمَا عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: تَوَضَّأْتُ لَكُمْ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، ثُمَّ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْنِ كَمَا رَأَيْتُهُ رَكَعَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ:" مَنْ تَوَضَّأَ كَمَا تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ صَلَاتِهِ بِالْأَمْسِ".
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ انہوں نے پانی منگوایا، سب سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، کلی بھی کی اور ناک میں پانی بھی ڈالا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت بازؤوں کو بھی دھویا، پھر سر کا مسح کر کے دونوں ہاتھ کانوں کی ظاہری سطح پر گزارے، پھر داڑھی پر پھیرے اور تین تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھو لئے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا کہ میں نے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا اسی طرح تمہیں بھی وضو کر کے دکھا دیا اور جس طرح انہوں نے دو رکعتیں پڑھی تھیں میں نے بھی پڑھ کر دکھا دیں اور ان دو رکعتوں سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اپنے دل میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 489]
حكم دارالسلام: حديث صحيح كسابقه، وإسناده حسن
حدیث نمبر: 490
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: لَقِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ، فَقَالَ لَهُ: ما لِي أَرَاكَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَبْلِغْهُ أَنِّي لَمْ أَفِرَّ يَوْمَ عَيْنَيْنِ، قَالَ: عَاصِمٌ، يَقُولُ: يَوْمَ أُحُدٍ، وَلَمْ أَتَخَلَّفْ يَوْمَ بَدْرٍ، وَلَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ، فَخَبَّرَ ذَلِكَ عُثْمَانَ ، قَالَ: فَقَالَ:" أَمَّا قَوْلُهُ إِنِّي لَمْ أَفِرَّ يَوْمَ عَيْنَيْنَ، فَكَيْفَ يُعَيِّرُنِي بِذَنْبٍ وَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ سورة آل عمران آية 155، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنِّي تَخَلَّفْتُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّي كُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَيَّةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِي، وَمَنْ ضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمِهِ فَقَدْ شَهِدَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ: إِنِّي لَمْ أَتْرُكْ سُنَّةَ عُمَرَ، فَإِنِّي لَا أُطِيقُهَا وَلَا هُوَ"، فَأْتِهِ فَحَدِّثْهُ بِذَلِكَ.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی، ولید نے کہا: کیا بات ہے، آپ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے؟ انہوں نے کہا کہ میری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دو کہ میں غزوہ احد کے دن فرار نہیں ہوا تھا، میں غزوہ بدر سے پیچھے نہیں رہا تھا اور نہ ہی میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو چھوڑا ہے، ولید نے جاکر یہ ساری بات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بتا دی۔ انہوں نے فرمایا کہ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے یہ جو کہا کہ میں غزوہ احد سے فرار نہیں ہوا تھا، وہ مجھے ایسی لغزش سے کیسے عار دلا سکتے ہیں، جسے اللہ نے خود معاف کر دیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم میں سے جو لوگ دو لشکروں کے ملنے کے دن پیٹھ پھیر کر چلے گئے تھے، انہیں شیطان نے پھسلا دیا تھا، بعض ان چیزوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں اور غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے کا جو طعنہ انہوں نے مجھے دیا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھا، یہاں تک کہ وہ اسی دوران فوت ہو گئیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکاء بدر کے ساتھ مال غنیمت میں میرا حصہ بھی شامل فرمایا اور یہ سمجھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا حصہ مقرر فرمایا وہ غزوہ بدر میں شریک تھا، رہی ان کی یہ بات کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سنت نہیں چھوڑی تو سچی بات یہ ہے کہ اس کی طاقت مجھ میں ہے اور نہ خود ان میں ہے تم جا کر ان سے یہ باتیں بیان کر دینا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 490]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 491
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ يَعْنِي عُثْمَانَ بْنَ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، كَانَ كَقِيَامِ نِصْفِ لَيْلَةٍ، وَمَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ، كَانَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ایسے ہے جیسے نصف رات قیام کرنا اور جو شخص فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے تو یہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 491]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 656
حدیث نمبر: 492
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ ابْنَةَ شَيْبَةَ بْنِ جُبَيْرٍ، فَبَعَثَنِي إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ أَخَاكَ أَرَادَ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يُشْهِدَكَ ذَاكَ، فَقَالَ: أَلَا أُرَاهُ عِرَاقِيًّا جَافِيًا،" إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكِحُ"، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ بِمِثْلِهِ يَرْفَعُهُ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے اپنے بیٹے کے نکاح کا دوران حج پروگرام بنایا اور مجھے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کے پاس جو کہ امیر حج تھے بھیجا، میں نے ان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے بھائی اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں، انہوں نے کہا کہ میں تو اسے عراقی دیہاتی نہیں سمجھتا تھا، یاد رکھو! محرم نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے، پھر انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس مضمون کی حدیث سنائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 492]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1409
حدیث نمبر: 493
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّ عُثْمَانَ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ، فَغَسَلَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، سَقَطَتْ خَطَايَاهُ" يَعْنِي مِنْ وَجْهِهِ وَيَدَيْهِ، وَرِجْلَيْهِ، وَرَأْسِهِ.
حمران کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بنچ پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کے گناہ اس کے چہرے، ہاتھوں، پاؤں اور سر سے جھڑ جاتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 493]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 494
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: اشْتَكَى عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ عَيْنَيْهِ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ سُفْيَانُ: وَهُوَ أَمِيرٌ، مَا يَصْنَعُ بِهِمَا؟ قَالَ: قَالَ: ضَمَّدَهُمَا بِالصَّبِرِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ يُحَدِّثُ ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں تو ابان بن عثمان سے یہ مسئلہ دریافت کروایا کہ وہ کیا کریں؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ صبر کا سرمہ لگا سکتا ہے (صبر کرے جب تک احرام نہ کھل جائے، سرمہ نہ لگائے) کیونکہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 494]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1204
حدیث نمبر: 495
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ بْنِ مَنَّاحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ :" أَنَّهُ رَأَى جَنَازَةً مُقْبِلَةً، فَلَمَّا رَآهَا، قَامَ، وَقَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
ابان بن عثمان رحمہ اللہ نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہو گئے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 495]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن مسلمة
حدیث نمبر: 496
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ : يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ وَلَا يَخْطُبُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی سے پیغام نکاح بھیجے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 496]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1409
حدیث نمبر: 497
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ رَجُلٍ مِنَ الْحَجَبَةِ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ :" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ، أَوْ قَالَ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا اشْتَكَى عَيْنَهُ: أَنْ يُضَمِّدَهَا بِالصَّبِرِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر اس کی آنکھیں دکھنے لگیں تو صبر کا سرمہ لگا لے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 497]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1204
حدیث نمبر: 498
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں مرا کہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 498]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م 26
حدیث نمبر: 499
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ : مَا حَمَلَكُمْ عَلَى أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى سُورَةِ الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى سُورَةِ بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ، فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ، فَمَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ مِنَ السُّوَرِ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، فَكَانَ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ يَكْتُبُ لَهُ، فَيَقُولُ:" ضَعُوا هَذِهِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَإِذَا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ الْآيَاتُ، قَالَ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَإِذَا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ، قَالَ:" ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، قَالَ: وَكَانَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ مِنْ أَوَائِلِ مَا نَزَلَ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ سُورَةُ بَرَاءَةٌ مِنْ أَوَاخِرِ مَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهًا بِقِصَّتِهَا، فَظَنَنَّا أَنَّهَا مِنْهَا، وَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا، فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے سورت انفال کو جو مثانی میں سے ہے سورت براۃ کے ساتھ جو کہ مئین میں سے ہے ملانے پر کس چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پایا، اور آپ نے ان کے درمیان ایک سطر کی «بسم الله» تک نہیں لکھی اور ان دونوں کو سبع طوال میں شمار کر لیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہو رہا تھا تو بعض اوقات کئی کئی سورتیں اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کاتب وحی کو بلا کر اسے لکھواتے اور فرماتے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو، بعض اوقات کئی آیتیں نازل ہوتیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے کہ ان آیات کو فلاں سورت میں رکھو اور بعض اوقات ایک ہی آیت نازل ہوتی لیکن اس کی جگہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیا کرتے تھے۔ سورت انفال مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورت براۃ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کا آخری حصہ ہے اور دونوں کے واقعات و احکام ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہم پر یہ واضح نہ فرما سکے کہ یہ اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ میرا گمان یہ ہوا کہ سورت براۃ، سورت انفال ہی کا جزو ہے اس لئے میں نے ان دونوں کو ملا دیا، اور ان دونوں کے درمیان، «بسم الله»، والی سطر بھی نہیں لکھی اور اسے سبع طوال میں شمار کر لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 499]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ومتنه منكر
حدیث نمبر: 500
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، وَشُعْبَةَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُثْمَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ سُفْيَانُ:" أَفْضَلُكُمْ"، وَقَالَ شُعْبَةُ:" خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے افضل اور بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 500]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5028
حدیث نمبر: 501
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ قَيْسٌ : فَحَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ ، أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ يَوْمَ الدَّارِ حِينَ حُصِرَ:" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ". قَالَ قَيْسٌ: فَكَانُوا يَرَوْنَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
ابوسہلہ کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوا اور وہ یوم الدار کے نام سے مشہور ہوا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم اور قائم ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 501]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 502
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبَاحٌ ، قَالَ: زَوَّجَنِي مَوْلَايَ جَارِيَةً رُومِيَّةً، فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَوَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ: عَبْدَ اللَّهِ، ثُمَّ وَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَوَلَدَتْ لِي غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ: عُبَيْدَ اللَّهِ، ثُمَّ طَبِنَ لِي غُلَامٌ رُومِيٌّ، قَالَ: حَسِبْتُهُ قَالَ: لِأَهْلِي رُومِيٌّ، يُقَالُ لَهُ: يُوحَنَّسُ، فَرَاطَنَهَا بِلِسَانِهِ يَعْنِي بِالرُّومِيَّةِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ لَهُ غُلَامًا أَحْمَرَ، كَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا هَذَا؟ فَقَالَتْ: هَذَا مِنْ يُوحَنَّسَ، قَالَ: فَارْتَفَعْنَا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَأَقَرَّا جَمِيعًا، فَقَالَ عُثْمَانُ : إِنْ شِئْتُمْ قَضَيْتُ بَيْنَكُمْ بِقَضِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى" أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ"، قَالَ: حَسِبْتُهُ قَالَ: وَجَلَدَهُمَا.
رباح کہتے ہیں کہ میرے آقا نے اپنی ایک رومی باندی سے میری شادی کر دی، میں اس کے پاس گیا تو اس سے مجھ جیسا ہی ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہوگیا، میں نے اس کا نام عبداللہ رکھ دیا، دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر ایک کالا کلوٹا لڑکا پیدا ہو گیا، میں نے اس کا نام عبیداللہ رکھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری بیوی پر میرے آقا کا ایک رومی غلام عاشق ہو گیا جس کا نام یوحنس تھا، اس نے اسے اپنی زبان میں رام کر لیا، چنانچہ اس مرتبہ جو بچہ پیدا ہوا وہ رومیوں کے رنگ کے مشابہ تھا، میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ یوحنس کا بچہ ہے، ہم نے یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے کہ بچہ بستر والے کا ہو گا اور غالباً انہوں نے ان دونوں کو کوڑے بھی مارے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 502]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة رباح، وللمرفوع شاهد من حديث أبى هريرة متفق عليه
حدیث نمبر: 503
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ أَبَا بُرْدَةَ فِي الْمَسْجِدِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ، فَالصَّلَوَاتُ الْمَكْتُوبَاتُ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص حکم الٰہی کے مطابق اچھی طرح مکمل وضو کرے تو فرض نمازیں درمیانی اوقات کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 503]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 231
حدیث نمبر: 504
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ زَاهِرٍ أَبَا رُوَاعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَخْطُبُ، فَقَالَ:" إِنَّا وَاللَّهِ قَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، وَكَانَ يَعُودُ مَرْضَانَا، وَيَتْبَعُ جَنَائِزَنَا، وَيَغْزُو مَعَنَا، وَيُوَاسِينَا بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ، وَإِنَّ نَاسًا يُعْلِمُونِي بِهِ، عَسَى أَنْ لَا يَكُونَ أَحَدُهُمْ رَآهُ قَطُّ".
عباد بن زاہر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا، بخدا! ہم لوگ سفر اور حضر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا لطف اٹھاتے رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیماروں کی عیادت کرتے، ہمارے جنازہ میں شرکت کرتے، ہمارے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے، تھوڑے اور زیادہ کے ساتھ ہماری غم خواری فرماتے اور اب بعض ایسے لوگ مجھے سکھانے کے لئے آتے ہیں جنہوں نے شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی دیکھا بھی نہ ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 504]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 505
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ أَبُو شَيْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً الْخُرَاسَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ قَاعِدًا فِي الْمَقَاعِدِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ مِمَّا مَسَّتْهُ النَّارُ فَأَكَلَهُ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى، ثُمَّ قَالَ عُثْمَانُ :" قَعَدْتُ مَقْعَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ، وَصَلَّيْتُ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیعد بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بنچوں پر بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے آگ پر پکا ہوا کھانا منگوایا اور کھانے لگے، پھر یوں ہی کھڑے ہو کر تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی اور فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کھایا، وہی کھایا اور جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، میں نے بھی اسی طرح نماز پڑھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 505]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 506
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ : أَنَّ عُثْمَانَ أَرَادَ أَنْ يَبْنِيَ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ، فَكَرِهَ النَّاسُ ذَاكَ، وَأَحَبُّوا أَنْ يَدَعُوهُ عَلَى هَيْئَتِهِ، فَقَالَ عُثْمَانُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ".
محمود بن لبید کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے پرانی ہیئت پر برقرار رکھنے کو زیادہ پسند کیا، لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے، اللہ اسی طرح کا ایک گھر اس کے لئے جنت میں تعمیر کر دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 506]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 450، م: 533
حدیث نمبر: 507
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا، فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا فِي النَّارِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کی نسبت میری طرف کرتا ہے، وہ جہنم میں اپنا گھر تیار کر لے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 507]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 508
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ فَرُّوخَ مَوْلَى الْقُرَشِيِّينَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَدْخَلَ اللَّهُ رَجُلًا الْجَنَّةَ كَانَ سَهْلًا مُشْتَرِيًا، وَبَائِعًا، وَقَاضِيًا، وَمُقْتَضِيًا".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں ضرور داخل کرے گا، جو نرم خو ہو خواہ خریدار ہو یا دکاندار، ادا کرنے والا ہو یا تقاضا کرنے والا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 508]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وله شاهد من حديث جابر فى الصحيح البخاري : 2076 وغيره، عطاء بن فروخ لم يلق عثمان، وانظر: 410
حدیث نمبر: 509
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، قَالَ: وَلِمَ تَقْتُلُونَنِي؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوْ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا".
سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، ہم ان کے ساتھ ہی تھے فرمانے لگے کہ بھلا کس جرم میں یہ لوگ مجھے قتل کریں گے؟ جب کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین میں سے کسی ایک صورت کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا حلال نہیں ہے، یا تو وہ آدمی جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، یا قاتل ہو اور مقتول کے عوض اسے قتل کر دیا جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 509]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 510
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا ، وَعُثْمَانَ يصليان يوم الفطر والأضحى، ثم ينصرفان يذكران الناس، قَالَ: وَسَمِعْتُهُمَا يَقُولَانِ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ". قَالَ: قَالَ: وَسَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْقَى مِنْ نُسُكِكُمْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ بَعْدَ ثَلَاثٍ".
ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، یہ دونوں حضرات پہلے نماز پڑھاتے تھے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، میں نے ان دونوں حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 510]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 511
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ جَاوَانَ ، قَالَ: قَالَ الْأَحْنَفُ : انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا، فَمَرَرْنَا بِالْمَدِينَةِ، فَبَيْنَمَا نَحْنُ فِي مَنْزِلِنَا، إِذْ جَاءَنَا آتٍ، فَقَالَ: النَّاسُ مِنْ فَزَعٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَإِذَا النَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَى نَفَرٍ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَتَخَلَّلْتُهُمْ حَتَّى قُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ بِأَسْرَعَ مِنْ أَنْ جَاءَ عُثْمَانُ يَمْشِي، فَقَالَ: أَهَهُنَا عَلِيٌّ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا الزُّبَيْرُ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا طَلْحَةُ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَهَهُنَا سَعْدٌ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِي فُلَانٍ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، فَابْتَعْتُهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ ابْتَعْتُهُ، فَقَالَ:" اجْعَلْهُ فِي مَسْجِدِنَا وَأَجْرُهُ لَكَ"؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يَبْتَاعُ بِئْرَ رُومَةَ؟" فَابْتَعْتُهَا بِكَذَا وَكَذَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ إِنِّي قَدْ ابْتَعْتُهَا، يَعْنِي بِئْرَ رُومَةَ، فَقَالَ:" اجْعَلْهَا سِقَايَةً لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَجْرُهَا لَكَ"؟ قَالُوا:" نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ يَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَالَ:" مَنْ يُجَهِّزُ هَؤُلَاءِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، فَجَهَّزْتُهُمْ، حَتَّى مَا يَفْقِدُونَ خِطَامًا وَلَا عِقَالًا؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حج کے ارادے سے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ سے گزر ہوا، ابھی ہم اپنے پڑاؤ ہی میں تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ مسجد نبوی میں لوگ بڑے گھبرائے ہوئے نظر آ رہے ہیں، میں اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں نے مل کر مسجد میں موجود چند لوگوں پر ہجوم کیا ہوا ہے، میں ان کے درمیان سے گزرتا ہوا وہاں جا کر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ وہاں سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کھڑے ہیں، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی دھیرے دھیرے چلتے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے آ کر پوچھا کہ یہاں علی رضی اللہ عنہ ہیں؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر باری باری مذکورہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ان کی موجودگی کے بارے میں پوچھا اور لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا جو شخص فلاں قبیلے کے اونٹوں کا باڑہ خرید کر دے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف فرما دے گا، میں نے اسے خرید لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ خرید لینے کے بارے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ہماری مسجد میں شامل کر دو، تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، بیر رومہ کون خریدے گا، میں نے اسے اچھی خاصی رقم میں خریدا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر بتایا کہ میں نے اسے خرید لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسلمانوں کے پینے کے لئے وقف کر دو، تمہیں اس کا اجر ملے گا؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش العسرۃ (غزوہ تبوک) کے موقع پر لوگوں کے چہرے دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو شخص ان کے لئے سامان جہاد کا انتظام کرے گا، اللہ اسے بخش دے گا، میں نے ان کے لئے اتنا سامان مہیا کیا کہ ایک لگام اور ایک رسی بھی کم نہ ہوئی؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تصدیق کی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہ، یہ کہہ کر وہ واپس چلے گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 511]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، عمرو بن جاوان لم يرو عنه غير حصين، ولم يذكره أحد في الثقات غير ابن حبان
حدیث نمبر: 512
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قَالَ يَعْلَى : طُفْتُ مَعَ عُثْمَانَ ، فَاسْتَلَمْنَا الرُّكْنَ، قَالَ يَعْلَى: فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ، فَلَمَّا بَلَغْنَا الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ، جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَلِمُ؟ قَالَ: فَقَالَ:" أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ أَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 512]
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، فإن بعض بني يعلى بن أمية مجهول لا يعرف
حدیث نمبر: 513
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، أَنْبَأَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ الْحَارِثَ مَوْلَى عُثْمَانَ، يَقُولُ: جَلَسَ عُثْمَانُ يَوْمًا وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ، أَظُنُّهُ سَيَكُونُ فِيهِ مُدٌّ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَالَ:" وَمَنْ تَوَضَّأَ وُضُوئِي، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ، غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصُّبْحِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، ثُمَّ لَعَلَّهُ أَنْ يَبِيتَ يَتَمَرَّغُ لَيْلَتَهُ، ثُمَّ إِنْ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الصُّبْحَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهُنَّ الْحَسَنَاتُ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ"، قَالُوا: هَذِهِ الْحَسَنَاتُ، فَمَا الْبَاقِيَاتُ يَا عُثْمَانُ؟ قَالَ: هُنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.
حارث جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے، ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے، اتنی دیر میں مؤذن آ گیا، انہوں نے ایک برتن میں پانی منگوایا، میرا خیال ہے کہ اس میں ایک مد کے برابر پانی ہو گا، انہوں نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص میری طرح ایسا ہی وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز پڑھے تو فجر اور ظہر کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر عصر کی نماز پڑھنے پر ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے، پھر مغرب کی نماز پڑھنے پر عصر اور مغرب کے درمیان اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے مغرب اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہے اور کھڑا ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھ لے تو فجر اور عشاء کے درمیان کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور یہ وہی نیکیاں ہیں جو گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! یہ تو حسنات ہیں باقیات (جن کا تذکرہ قرآن میں بھی آتا ہے وہ) کیا چیز ہیں؟ فرمایا وہ یہ کلمات ہیں۔ «لا اله الا الله و سبحان الله والحمدلله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله» ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 513]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 514
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعُثْمَانَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ، فَأَذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ عُثْمَانُ: ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، وَقَالَ لِعَائِشَةَ:" اجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ"، فَقَضَى إِلَيَّ حَاجَتِي، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي لَمْ أَرَكَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، كَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ، وَإِنِّي خَشِيتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِي حَاجَتِهِ"، وقَالَ اللَّيْثُ: وَقَالَ جَمَاعَةُ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَائِشَةَ:" أَلَا أَسْتَحْيِي مِمَّنْ يَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دونوں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اجازت چاہی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھ رکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور خود اسی طرح لیٹے رہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کام پورا کر کے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر اجازت طلب کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت دے دی لیکن خود اسی کیفیت پر رہے، وہ بھی اپنا کام پورا کر کے چلے گئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد میں نے آ کر اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اپنے کپڑے سمیٹ لو، تھوڑی دیر میں میں بھی اپنا کام کر کے چلا گیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر آپ نے جو اہتمام کیا، وہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے آنے پر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان میں شرم و حیاء کا مادہ بہت زیادہ ہے، مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے انہیں اندر یوں ہی بلا لیا اور میں اپنی حالت پر ہی رہا تو وہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں اسے پورا نہ کر سکیں گے اور بعض روایات کے مطابق یہ فرمایا کہ میں اس شخص سے حیاء کیوں نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 514]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2402
حدیث نمبر: 515
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ ، وَعَائِشَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ.. فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ عُقَيْلٍ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں مذکور ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 515]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وانظر ما قبله
حدیث نمبر: 516
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ ، وَنَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ مَشَى إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَصَلَّاهَا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز کے لئے روانہ ہو اور اسے ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 516]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 160، م: 227
حدیث نمبر: 517
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمِّي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَوْهَبٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: رَاحَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ حَاجًّا، وَدَخَلَتْ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ امْرَأَتُهُ، فَبَاتَ مَعَهَا حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ غَدَا عَلَيْهِ رَدْعُ الطِّيبِ، وَمِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ مُفْدَمَةٌ، فَأَدْرَكَ النَّاسَ بِمَلَلٍ قَبْلَ أَنْ يَرُوحُوا، فَلَمَّا رَآهُ عُثْمَانُ انْتَهَرَ وَأَفَّفَ، وَقَالَ:" أَتَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ، وَقَدْ نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَهُ وَلَا إِيَّاكَ، إِنَّمَا نَهَانِي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، ان کی زوجہ محترمہ اپنے قریبی رشتہ دار محمد بن جعفر کے پاس چلی گئیں، محمد نے رات انہی کے ساتھ گزاری، صبح ہوئی تو محمد کے جسم سے خوشبو کی مہک پھوٹ رہی تھی اور عصفر سے رنگا ہوا لحاف ان کے اوپر تھا، کوچ کرنے سے پہلے ہی لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو انہیں ڈانٹا اور سخت سست کہا: اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود بھی تم نے عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہن رکھا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی سن لیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کیا تھا اور نہ ہی آپ کو انہوں نے تو مجھے منع کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 517]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن عبدالرحمن وجهالة عبيدالله بن عبدالله
حدیث نمبر: 518
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو خَيْثَمَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ أَبِي فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، وَقَالَ أَبُو خَيْثَمَةَ: حَدَّثَنِي عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ ، يَقُولُ: قَالَ عُثْمَانُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ بِفِنَاءِ أَحَدِكُمْ نَهَرٌ يَجْرِي، يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، مَا كَانَ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ؟" قَالُوا: لَا شَيْءَ، قَالَ:" إِنَّ الصَّلَوَاتِ تُذْهِبُ الذُّنُوبَ كَمَا يُذْهِبُ الْمَاءُ الدَّرَنَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بتاؤ! اگر تمہارے گھر کے صحن میں ایک نہر بہہ رہی ہو اور تم روزانہ اس میں سے پانچ مرتبہ غسل کرتے ہو تو کیا تمہارے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی؟ لوگوں نے کہا: بالکل نہیں! فرمایا: پانچوں نمازیں گناہوں کو اسی طرح ختم کر دیتی ہیں جیسے پانی میل کچیل کو ختم کر دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 518]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 519
(حديث مرفوع) قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مُخَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرٍ الْأَحْمَسِيِّ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي، وَلَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اہل عرب کو دھوکہ دے، وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہو گا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہو گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 519]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، حصين بن عمر ضعفه أحمد وقال : إنه كان يكذب وقال البخاري : منكر الحديث وقال مسلم : متروك الحديث
حدیث نمبر: 520
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ مُرَاجِمٍ مِنْ بَنِي قَيْسِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْجَمَّاءَ لَتُقَصُّ مِنَ الْقَرْنَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سینگ والی بکری سے بے سینگ والی بکری کا بھی قصاص لیا جائے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 520]
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج بن نصیر
حدیث نمبر: 521
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ:" شَهِدْتُ عُثْمَانَ يَأْمُرُ فِي خُطْبَتِهِ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، وَذَبْحِ الْحَمَامِ".
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ اپنے خطبے میں کتوں کو قتل کرنے اور کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 521]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مبارك بن فضالة
حدیث نمبر: 522
(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، قَالَتْ:" كَانَ عُثْمَانُ مِنْ أَجْمَلِ النَّاسِ".
ام موسیٰ کہتی ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 522]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 523
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَمَرَّ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيَّ فَمَنَعْتُهُ، فَأَبَى، فَسَأَلْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، فَقَالَ:" لَا يَضُرُّكَ يَا ابْنَ أَخِي".
ابراہیم بن سعد اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن نماز پڑھ رہا تھا، ایک آدمی میرے سامنے سے گزر نے لگا، میں نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ نہ مانا، میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: بھتیجے! اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 523]
حكم دارالسلام: . صحيح، سويد بن سعيد- وإن كان فيه كلام - قد توبع
حدیث نمبر: 524
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ :" إِنْ وَجَدْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَضَعُوا رِجْلِي فِي الْقَيْدِ، فَضَعُوهَا".
ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تمہیں کتاب اللہ میں یہ حکم مل جاتا ہے کہ میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دو، تو تم یہ بھی کر گزرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 524]
حكم دارالسلام: صحيح، سويد بن سعيد قد توبع
حدیث نمبر: 525
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَجَعَلَ النَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ، وَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ، وَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ وَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ"... وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں وقوف کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا اور فرمایا: یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا میدان عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ سے کوچ کیا اور سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: لوگو! مطمئن رہو، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ آ پہنچے، مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، پھر مزدلفہ میں وقوف فرمایا۔ مزدلفہ کا وقوف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل قزح پر فرمایا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو بٹھا رکھا تھا اور فرمایا: یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے کوچ کیا اور سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ پھر دائیں بائیں بھاگنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ لوگوں کو سکون کی تلقین فرمائی اور راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 525]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 526
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي الْيَعْفُورِ الْعَبْدِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَعْتَقَ عِشْرِينَ مَمْلُوكًا، وَدَعَا بِسَرَاوِيلَ، فَشَدَّهَا عَلَيْهِ، وَلَمْ يَلْبَسْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَارِحَةَ فِي الْمَنَامِ، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَإِنَّهُمْ قَالُوا لِي: اصْبِرْ، فَإِنَّكَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا الْقَابِلَةَ"، ثُمَّ دَعَا بِمُصْحَفٍ فَنَشَرَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقُتِلَ وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ.
مسلم کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری دن اکٹھے بیس غلام آزاد کئے، شلوار منگوا کر مضبوطی سے باندھ لی حالانکہ اس سے پہلے زمانہ جاہلیت یا زمانہ اسلام میں انہوں نے اسے کبھی نہ پہنا تھا اور فرمایا کہ میں نے آج رات خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کو دیکھا ہے، یہ حضرات مجھ سے کہہ رہے تھے کہ صبر کرو، کل کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کرو گے، پھر انہوں نے قرآن شریف کا نسخہ منگوایا اور اسے کھول کر پڑھنے کے لئے بیٹھ گئے اور اسی حال میں انہیں شہید کر دیا گیا جب کہ قرآن کریم کا وہ نسخہ ان کے سامنے موجود تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 526]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، قاله أحمد شاكر
حدیث نمبر: 527
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ غَسْلًا".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ ہاتھ دھوئے، تین مرتبہ بازو دھوئے، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو اچھی طرح دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 527]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج مدلس وقد عنعن، وعطاء لم يدرك عثمان
حدیث نمبر: 528
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَمْ تَفْجَأْهُ فَاجِئَةُ بَلَاءٍ حَتَّى اللَّيْلِ، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي، لَمْ تَفْجَأْهُ فَاجِئَةُ بَلَاءٍ حَتَّى يُصْبِحَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت یہ دعا پڑھ لیا کرے «بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» اسے رات تک کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی اور جو رات کو پڑھ لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچاسکے گی، ان شاء اللہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 528]
حكم دارالسلام: حسن، وانظر : 446
حدیث نمبر: 529
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ بْنِ مَنَّاحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ :" أَنَّهُ رَأَى جَنَازَةً مُقْبِلَةً، فَلَمَّا رَآهَا قَامَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ، وَخَبَّرَنِي أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
ابان بن عثمان رحمہ اللہ نے ایک جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر ایک جنازے پر پڑی تو وہ بھی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنازے کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 529]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن مسلمة
حدیث نمبر: 530
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصُّبْحَةُ تَمْنَعُ الرِّزْقَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 530]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا شبه موضوع
حدیث نمبر: 531
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُحْرِزٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دُفِنَ فِي ثِيَابِهِ بِدِمَائِهِ، وَلَمْ يُغَسَّلْ".
فروخ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت موجود تھا، انہیں ان کے خون آلود کپڑوں ہی میں سپرد خاک کیا گیا اور انہیں غسل بھی نہیں دیا گیا (کیونکہ وہ شہید تھے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 531]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محبوب بن محرز، و جهالة إبراهيم بن عبدالله
حدیث نمبر: 532
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ سَلْمٍ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زِيَادٍ الْقُرَشِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مِحْجَنٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَظَلَّ اللَّهُ عَبْدًا فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، أَوْ تَرَكَ لِغَارِمٍ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس دن اللہ کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہو گا اللہ اس شخص کو اپنے سائے میں جگہ عطاء فرمائے گا جو کسی تنگدست کو مہلت دے یا مقروض کو چھوڑ دے۔
[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 532]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، ويغني عنه حديث أبى اليسر فى صحيح مسلم: 3006 وحديث أبى هريرة فى جامع الترمذي : 1306
حدیث نمبر: 533
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ يَعْنِي الْحَرْبِيَّ أَبُو زَكَرِيَّا ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصُّبْحَةُ تَمْنَعُ الرِّزْقَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔
[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 533]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا شبه : موضوع
حدیث نمبر: 534
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُحْرِمُ لَا يَنْكِحُ، وَلَا يُنْكِحُ، وَلَا يَخْطُبُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: محرم خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کروائے بلکہ پیغام نکاح بھی نہ بھیجے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 534]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م 1409
حدیث نمبر: 535
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، حَدَّثَنِي نُبَيْهُ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ، وَكَانَ يَخْطُبُ بِنْتَ شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ عَلَى ابْنِهِ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ عَلَى الْمَوْسِمِ، فَقَالَ:" أَلَا أُرَاهُ أَعْرَابِيًّا، إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكِحُ"، أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ عُثْمَانُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنِي نُبَيْهٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، بِنَحْوِهِ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے اپنے بیٹے کے نکاح کا دورانِ حج پروگرام بنایا اور مجھے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کے پاس جو کہ امیر حج تھے بھیجا، میں نے ان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے بھائی اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں، انہوں نے کہا کہ میں تو اسے دیہاتی نہیں سمجھتا تھا، یاد رکھو! محرم نہ نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے، پھر انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس مضمون کی حدیث سنائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 535]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح كسابقه
حدیث نمبر: 536
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أُمِّ هِلَالٍ ابْنَةِ وَكِيعٍ ، عَنْ نَائِلَةَ بِنْتِ الْفَرَافِصَةِ امْرَأَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَتْ:" نَعَسَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانُ فَأَغْفَى، فَاسْتَيْقَظَ، فَقَالَ: لَيَقْتُلَنَّنِي الْقَوْمُ، قُلْتُ: كَلَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لَمْ يَبْلُغْ ذَاكَ، إِنَّ رَعِيَّتَكَ اسْتَعْتَبُوكَ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِي، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَقَالُوا:" تُفْطِرُ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سیدہ نائلہ بنت فرافصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اونگھ آئی اور وہ ہلکے سے سو گئے، ذرا دیر بعد ہوشیار ہوئے تو فرمایا کہ یہ لوگ مجھے قتل کر کے رہیں گے، میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہ ان شاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا، بات ابھی اس حد تک نہیں پہنچی، آپ کی رعایا آپ سے محض معمولی سی ناراض ہے، فرمایا: نہیں! میں نے نبی علیہ السلام اور حضرات شیخین کو ابھی خواب میں دیکھا ہے، وہ مجھے بتا رہے تھے کہ آج رات تم روزہ ہمارے پاس آ کر افطار کروگے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 536]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ولبعضه شاهد تقدم برقم: 526