نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو ہر صبح و شام اس کا اصل ٹھکانا اس کے سامنے لایا جاتاہے۔اگر وہ جنت والوں میں سے ہے تو اہل جنت سے اور اگر وہ دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ میں سے (اس کا ٹھکانا اسے دکھایاجاتاہےاور اس سے) کہاجاتاہے۔تمھاراٹھکانا ہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے زندہ کر کے اس (ٹھکانے) تک لے جائے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے کوئی جب مرجاتا ہے تو ہر صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنتیوں کے مقام سے اور اگر دوزخیوں میں سے ہے تو دوزخیوں کے مقام سے اور کہا جاتا ہے یہ تیرا ہونے والا ٹھکانا ہے حتی کہ قیامت کے دن اللہ تجھے اس کی طرف اٹھائے گا۔"
سالم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکاناپیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتوجنت اور اگر اہل دوزخ میں سے ہوتو دوزخ (اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے) "کہا: پھر کہا جاتا ہے یہ تمھارا وہی ٹھکانا ہے جس کی طرف قیامت کے دن تجھے دوبارہ اٹھاکر لے جایا جائے گا۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو ہر صبح و شام اس پراس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور اگروہ دوزخی ہے تو آگ آپ نے فرمایا:"پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا وہ ٹھکانا ہےجس کی طرف تمھیں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔"
ابن علیہ نے کہا: ہمیں سعید جریری نے ابو نضرہ سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، (ابو نضرہ نے) کہا: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوکر نہیں سنی، بلکہ مجھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے، ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ بدک گیا وہ آپ کو گرانے لگا تھا (دیکھا تو) وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں (ابن علیہ نے) کہا: جریری اسی طرح کہا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان قبروں والوں کو کو ن جانتاہے؟" ایک آدمی نے کہا: میں، آپ نے فرمایا: "یہ لو گ کب مرے تھے؟اس نے کہا: شرک (کے عالم) میں مرے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ لو گ اپنی قبروں میں مبتلائے عذاب ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (اپنے مردوں کو) دفن نہ کرو گےتو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے جس عذاب (کی آوازوں) کومیں سن رہا ہوں وہ تمھیں بھی سنادے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا: "آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (تمام) فتنوں سے جوان میں سے ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوکر نہیں سنی،بلکہ مجھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے،ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک وہ بدک گیا وہ آپ کو گرانے لگا تھا (دیکھا تو) وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں (ابن علیہ نے) کہا: جریری اسی طرح کہا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ان قبروں والوں کو کو ن جانتاہے؟"ایک آدمی نے کہا: میں،آپ نے فرمایا:"یہ لو گ کب مرے تھے؟اس نے کہا:شرک (کے عالم) میں مرے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ لو گ اپنی قبروں میں مبتلائے عذاب ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (اپنے مردوں کو) دفن نہ کرو گےتو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے جس عذاب (کی آوازوں)کومیں سن رہا ہوں وہ تمھیں بھی سنادے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا:"آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "(تمام) فتنوں سے جوان میں سے ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم فتنوں سے جو ظاہر ہیں اور پوشیدہ ہیں اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔"سب نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن نہ کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو عذاب قبر (کی آوازیں) سنوائے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن نہیں کر سکو گے۔تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں قبر کا عذاب سنا دے۔"
حضرت براء رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج غروب ہونے کے بعد باہر تشریف لے گئے آپ نے ایک آواز سنی تو فرمایا: "یہودہیں انھیں قبر میں عذاب دیا جارہاہے۔
امام صاحب اپنے بہت سے اساتذہ کی سندوں سے حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج غروب ہونے کے بعد باہر تشریف لے گئے تو ایک آواز سنی، چنانچہ فرمایا:"یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔"
شیبان بن عبد الرحمٰن نے قتادہ سے روایت کی کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اوراس کے ساتھی اسے چھوڑکرواپس جاتے ہیں تو وہ (بندہ) ان کے جوتوں کی آہٹ سنتاہے۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتےہیں۔تم اس آدمی کے متعلق (دنیامیں) کیاکہاکرتے تھے؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاں تک مومن ہے تووہ کہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔"فرمایا: "تو اس سے کہاجائے گا۔ تم دوزخ میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تمھیں جنت میں ایک ٹھکانا دے دیا ہے۔"اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ نے کہا: اور ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی قبر میں ستر ہاتھ وسعت کردی جاتی ہے اور قیامت تک اس کی قبر میں ترو تازہ نعمتیں بھردی جاتی ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ (مرنے کے بعد)جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پشت پھیر کر چل دیتے ہیں، یقیناً وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔"آپ نے فرمایا:"اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں۔"تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ آپ نے فرمایا:"پس جو سچا مومن ہوتا ہےتو وہ کہتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں (کیونکہ وہ دنیا میں گواہی دیتا رہا ہے) کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔"آپ نے فرمایا:"اسے کہا جاتا ہے(ایمان نہ لانے کی صورت میں)دوزخ میں جو جگہ تمھاری ہونی تھی اس کو دیکھ لو،اللہ تعالیٰ نے اب تمہیں اس کی جگہ جنت میں ایک ٹھکانا دے دیا ہے۔" نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"چنانچہ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لے گا۔"قتادہ بیان کرتے ہیں اور ہمیں بتایا گیا، اس کے لیے اس کی قبر ستر(70) ہاتھ وسیع کردی جاتی ہے اور اسے دو بارہ اٹھائے جانے تک ترو تازہ نعمتوں سے بھردیا جاتا ہے۔
یزید بن زریع نے کہا: ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو لوگوں کے واپس جاتے وقت وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔"
حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ واپس جانے والوں کی واپسی کے وقت ان کی جوتیوں کی آہٹ سنتا ہے۔
عبدالوہاب بن عطاء نے سعید (بن ابی عروبہ) سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بندے کو قبر میں رکھا جا تا ہے اور اس کے ساتھی رخ موڑ کر چل پڑتے ہیں۔"اس کے بعد قتادہ سے شیبان کی بیان کردہ روایت کے مانند بیان کیا۔
حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہےوہ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ (مرنے کے بعد) کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کے پاس سے پھرتے ہیں۔"آگے حدیث نمبر70 کی طرح ہے۔
سعد بن عبیدہ نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو پختہ قول (کلمہ طیبہ کی حقیقی شہادت) کے ذریعے سے (حق پر) ثابت قدم رہتا ہے۔"فرمایا: "یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی اس (مرنے والے) سے کہا جا تاہے۔تمھارا رب کون ہے؟وہ (مومن) کہتا ہے۔میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہی قول عزوجل (یُثَبِّتُ اللَّـہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ ۖ)(سے مراد) ہے۔"
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو لوگ ایمان لائے اللہ انہیں قول ثابت (کلمہ طیبہ)سے ثابت قدم رکھتا ہے۔(ابراہیم 27)آپ نے فرمایا:یہ آیت عذاب قبرکے بارے میں اتری ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے، تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور میرا نبی(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اللہ عزوجل کے اس قول میں اس کی طرف اشارہ ہے(جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔"
خیثمہ نے حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے (اس آیت کے بارے میں) روایت کی: "اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت اور آخرت میں پختہ قول پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ "کہا: یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ"جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ قول ثابت (کلمہ شہادت) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔" قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مجھے عبید اللہ بن عمر قواریری نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں بدیل نے عبد اللہ بن شقیق سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: "جب مومن کی روح نکل جاتی ہے تو وہ فرشتے اس (روح) کو لیتے ہیں اور اسے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں۔"حماد نے کہا: انھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کی بات کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آسمان والے کہتے ہیں۔یہ ایک پاکیزہ روح ہے زمین والوں کی طرف سے آئی ہے (اے روح مومن!) تجھ پر اور اس جسم پر جسے تونے آباد کیے رکھا اللہ کی رحمت ہو۔ چنانچہ اسے اس کے رب عزوجل کے پاس لے جایا جاتا ہے پھر وہ فرماتا ہے۔اسے مقررشدہ آخری مدت تک کے لیے (عالی شان ٹھکانے پر) لے جاؤ۔" فرمایا: "اور کافرجب اس کی روح نکلتی ہے۔ حماد نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بدبو اور (اس پر کی جانے والی) لعنتوں کا ذکر کیا۔ اور آسمان والے کہتے ہیں۔گندی روح ہے زمین کی طرف سے آئی ہے فرمایا: تو کہاجاتا ہے اسے مقرر شدہ آخری مدت تک کے لیے (برےٹھکانے) پر لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر جو آپ کے جسم مبارک پر تھی اس طرح موڑ کر اپنی ناک پر رکھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:"جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اس کو وصول کر کے اسے اوپر لے جاتے ہیں۔"حماد کہتے ہیں،آپ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا آپ نے فرمایا:" آسمان والے کہتے ہیں پاکیزہ روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت فرمائے اور اس بدن پر بھی جسے تو آباد کیے ہوئے تھی، پھر اسے اس کے رب عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہےپھر وہ فرماتا ہے اسے وقت مقررہ (برزخ) تک کے لیے لے جاؤ، آپ نے فرمایا:"اور کافر جب اس کی روح نکلتی ہے۔حماد کہتے ہیں، آپ نے اس کی بد بو اور لعنت کا ذکر کیا اور آسمان والے کہتے ہیں پلید روح زمین کی طرف سے آئی ہے سو کہا جاتا ہے اس کو آخر مدت کے لیے(سجین)لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بدبو کے ذکر پر) اپنی چادر کا پلو اس طرح اپنی ناک پر ڈال لیا۔"
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا، پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر (میں قتل ہونے) والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں) کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: "اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کوئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔(حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا،پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر(میں قتل ہونے)والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں)کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا:"اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کو ئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا۔پھر آپ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکارکر فرمایا: اے ابوجہل بن ہشام!اے امیہ بن خلف!اے عتبہ بن ربیعہ!اےشیبہ بن ربیعہ!کیاتم نے وہ وعدہ سچانہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟میں نے تو اپنے رب نے کے وعدے کو سچا پایاہے۔جو اس نے میرے ساتھ کیاتھا!"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنا تو عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے۔جبکہ وہ تولاشیں بن چکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹا گیا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت انس بن املک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک مقتولین بدرکو رہنے دیا۔ پھر ان کے پاس آئے اور ان پر کھڑے ہو کر ان کوآواز دی۔"اے ابو جہل بن ہشام،اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ،کیا اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو وقوع پذیر ہوتے پا لیا۔"کیونکہ میں نے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو شدنی (واقع ہوتے) پالیا۔"سو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے سنیں گے جواب دے سکیں گے، جبکہ یہ لاش بن چکے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے جو کہہ رہا ہوں،تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو، لیکن انہیں جواب دینے کی قدرت حاصل نہیں ہے۔"پھرآپ نے اس ان کے بارے میں کھینچنے کا حکم دیا تو انہیں کھینچ کر بدر کے کھڈر میں ڈال دیا گیا۔"
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں پر غالب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا بیس پر کئی آدمی قریش کے سرداروں کے لیے ان کی نعشیں ایک کنویں میں ڈالیں گئیں بدر کے کنوؤں میں سے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا/حدیث: 7224]