حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا۔پھر آپ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکارکر فرمایا: اے ابوجہل بن ہشام!اے امیہ بن خلف!اے عتبہ بن ربیعہ!اےشیبہ بن ربیعہ!کیاتم نے وہ وعدہ سچانہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟میں نے تو اپنے رب نے کے وعدے کو سچا پایاہے۔جو اس نے میرے ساتھ کیاتھا!"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنا تو عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے۔جبکہ وہ تولاشیں بن چکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹا گیا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت انس بن املک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک مقتولین بدرکو رہنے دیا۔ پھر ان کے پاس آئے اور ان پر کھڑے ہو کر ان کوآواز دی۔"اے ابو جہل بن ہشام،اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ،کیا اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو وقوع پذیر ہوتے پا لیا۔"کیونکہ میں نے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو شدنی (واقع ہوتے) پالیا۔"سو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے سنیں گے جواب دے سکیں گے، جبکہ یہ لاش بن چکے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے جو کہہ رہا ہوں،تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو، لیکن انہیں جواب دینے کی قدرت حاصل نہیں ہے۔"پھرآپ نے اس ان کے بارے میں کھینچنے کا حکم دیا تو انہیں کھینچ کر بدر کے کھڈر میں ڈال دیا گیا۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7223
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ثم اَمَرَ بهم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ انہیں آپ کے ان کو مخاطب کرنے کے بعدکھڈ یا کچے کنویں میں ڈالا گیا، بلکہ یہ معنی ہے کہ خطاب کے علاوہ، ان سے یہ سلوک بھی کیا گیا، جیسا کہ سورہ بلد میں اعمال کے تذکرہ کے بعد فرمایا ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا کہ یہ بات بھی ہے کہ وہ مومن ہو، ''اور امیہ بن خلف اگرچہ کھڈ میں نہیں ڈالا گیا تھا، کیونکہ بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے وہ پھول کر پھٹ گیا تھا، لیکن اس کو ان لاشوں کے قریب ہی رکھ کر مٹی اور پتھروں سے چھپا دیا گیا تھا، اس لیے آپ نے اس کو بھی مخاطب فرمایا، نیز اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام یہی سمجھتے تھے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے حیرت زدہ ہو کر آپ سے سوال کیا کہ آپ ان لاشوں سے کیوں کر مخاطب ہیں۔