8. باب: روزہ طلوع فجر سے شروع ہو جاتا ہے اور طلوع فجر تک کھانا وغیرہ جائز ہے، اور اس فجر (صبح کاذب) کا بیان جس میں روزہ شروع ہوتا ہے، اور اس فجر (صبح صادق) کا بیان جس میں صبح کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب آیت حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ نازل ہوئی۔تو حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے سفید اور سیاہ رنگ کے دو دھاگے رکھ لئے ہیں۔جن کی وجہ سے میں رات اور دن میں امتیاز کرلیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ جس میں رات اور دن سماگئے ہیں۔ وہ (د ھاگا) تو رات کی سیاہی اور دن کی روشنی ہے۔"
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری ”یہاں تک کہ تم پر فجر کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے۔“ بقرہ آیت187۔ عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں ایک سفید رنگ کی رسی اور ایک سیاہ رنگ کی رسی رکھ لیتا ہوں تاکہ میں رات اور دن میں امتیاز کر سکوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر تو) تمھارا تکیہ بہت چوڑا ہے (جس کے نیچے رات دن چھپ جاتے ہیں) ان سے مراد تو رات کی سیاہی اور دن کی روشنی ہے۔“
فضیل بن سلیمان، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔جب یہ آیتوَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ نازل ہوئی تو بعض آدمی سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ لے لیتے اور جب تک ان میں واضح امتیاز نظر نہ آتاتو کھاتے رہتے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے لفظ" مِنَ الْفَجْرِ " نازل فرمایا اور سفید دھاگے کی وضاحت ہوگئی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جب یہ آیت اتری ”اور کھاؤ پیو یہاں تک تم پر سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ممتاز ہو جائے“ تو بعض لوگ ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لے لیتے اور ان دونوں کے ممتاز اور نمایاں ہونے تک کھاتے رہتے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿مِنَ الْفَجْرِ﴾ فجر سے لفظ اتار کر مفہوم کو واضح کر دیا ہے۔
ابو غسان، ابو حازم، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض آدمی جب ان میں سے کسی کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہوتا تو ا پنے دونوں پاؤں میں سیاہ اور سفید دھاگے باندھ لیتے اور جب تک دونوں دھاگوں میں واضح امتیاز نظر نہ آتا تو کھاتے اور پیتے رہتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ " مِنَ الْفَجْرِ "نازل فرمایا تو تب معلوم ہوا کہ سیاہ وسفید دھاگے سے رات اور دن مراد ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جب یہ آیت اتری ”اور کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا سیاہ دھاگا سے واضح ہو جائے“ تو جب آدمی روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو وہ اپنے پیروں سے سیاہ اور سفید دھاگا باندھ لیتا۔ تو وہ اس وقت تک کھاتا پیتا رہتا حتی کہ اس کے سامنے ان کا منظر ظاہر ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس آیت کا یہ ٹکڑا اتارا ﴿مِنَ الْفَجْرِ﴾ تو پھر انھوں نے جان لیا کہ اسے مراد رات دن ہے۔
لیث، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات کے و قت ہی اذان دے دیتے تھے لہذا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سنو۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو اذان دیتا ہے تو کھاتے پیتے رہو حتی کہ تم ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سن لو۔“
یونس، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں۔لہذا تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ تم حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سنو۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئےسنا کہ ”بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو اذان دیتا ہے لہٰذا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےاذان دینے تک تو کھاتے پیتے رہو (حتی کہ تم ابن مکتوم کی اذان سن لو)“
ابن نمیر، عبیداللہ بن نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے حضرت بلال اور حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ عنہ تو رات کے و قت ہی اذان دے دیتے ہیں لہذا تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم اذان دیں راوی نے کہا کہ ان دونوں کی اذان میں کوئی فرق نہیں تھا۔سوائے اس کے کہ وہ ا ذان دے کر اترتے تھے اور یہ چڑھتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو (2) مؤذن تھے۔ بلال اور نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتا ہے اس لیے ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان تک کھاتے پیتے رہو“ انھوں نے بتایا ان دونوں میں صرف اتنا فرق تھا کہ ایک اترتا تو دوسرا چڑھتا۔
ابو اسامہ، عبدہ، حمادبن مسعدہ، سب نے عبیداللہ سے (پچھلی دونوں حدیثوں میں مذکوران کی) سندوں کےساتھ ابن نمیر کی حدیث کی طرح روایت کی گئی ہے۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے عبید اللہ کی دونوں سندوں سے (عبیداللہ عن نافع، عن ابن عمر، عبیداللہ عن ابو القاسم، عن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ابن نمیر کی حدیث کے ہم معنی بیان کرتے ہیں۔
اسماعیل بن ابراہیم، سلیمان تیمی، ابی عثمان، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کی وجہ سے نہ رکے یا آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی پکار سحری کھانے سے نہ ر وکے کیونکہ وہ اذان دیتے ہیں یا فرمایا کہ وہ پکارتے ہیں تاکہ نماز میں کھڑا ہونے والا سحری کے لئے لوٹ جائے۔اور تم میں سے سونے والا جاگ جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ہاتھ سیدھاکیا اور اوپر کو بلند کیا یہاں تک کہ آپ فرماتے کہ صبح اس طرح نہیں ہوتی پھر انگلیوں کو پھیلا کر فرمایاس کہ صبح اس طرح ہوتی ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان یا ندا سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ اذان یا ندا رات کو دیتا ہے تاکہ قیام کرنے والے کو(سحری یا آرام کی طرف) لوٹا دے (یا اگر کوئی اور ضرورت ہو تو پوری کرے) اور سونے والے کو بیدار کر دے اور فرمایا: صبح اس، اس طرح نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ نیچے کیا اور اوپر اٹھایا حتی کہ اس طرح ہو اپنی دونوں انگلیوں کو کھول دیا کہ وہ دائیں بائیں پھیل جائیں۔“
خالداحمر نے، سلیمان تیمی، سے اس سند کے ساتھ حضرت سلیمان تیمی سے یہ روایت اسی طرح نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں انہوں نے فرمایا کہ فجر وہ نہیں جو اس طرح ہو اور آپ نے انگلیوں کو ملایا پھر انہیں زمین کی طرف جھکایا اور فرمایا کہ فجر وہ ہے جو اس طرح ہو اور شہادت کی انگلی کو شہادت کی انگلی پر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو پھیلایا۔
مصنف اپنے مالک اور استاد سے سلیمان تیمی ہی کی سند سے اس فرق کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر وہ نہیں ہے جو ایسی ہو(آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو مجتمع کر کے بعد میں زمین کی طرف جھکا دیا) لیکن فجر وہ ہے جو اس طرح ہو“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت کو دوسری شہادت پر رکھا اور دونوں ہاتھ پھیلا دئیے دائیں بائیں کھول دیے۔
ابو بکر ابن ابی شیبہ، معتمر بن سلیمان، اسحاق بن ابراہیم، جریر، معتمر بن سلیمان، اس سند کے ساتھ حضرت سلیمان تیمی سے اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔اس میں ہے کہ حضرت بلال کی اذان اس وجہ سے ہوتی ہے کہ تم میں سے جو سورہا ہو وہ بیدار ہوجائے اور جو نماز پڑھ رہا ہو وہ لوٹ جائے۔اسحاق نے کہا: جریر نے اپنی حدیث میں کہا ہے کہ صبح اس طرح نہیں ہے مطلب یہ کہ چوڑائی میں ہے لمبائی میں نہیں ہے۔
مصنف یہی حدیث دو اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں معتمر کی حدیث یہاں ختم ہو جاتی ہے کہ ”وہ سونے والے کو بیدار کرے اور قیام کرنے والے کو سحری یا آرام یا اور کسی ضرورت کے لیے لوٹا دے۔“ اور اسحاق بیان کرتے ہیں جریر کی حدیث میں ہے ”فجر ایسے نہیں ہے بلکہ ایسے ہے“ یعنی فجر وہ ہے جو چوڑائی میں پھیلتی ہے۔ اور وہ اوپر لمبائی میں نہیں ہے۔
عبدالوارث، عبداللہ بن سوادۃ قشیری، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں۔کہ تم میں سے کوئی سحری کےوقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے دھوکا نہ کھائے اور نہ ہی اس سفیدی سے جب تک کہ وہ پھیل نہ جائے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”تم میں سے کسی کو بلال کی ندا سحری سے دھوکا میں مبتلا نہ کرے اور نہ یہ سفید ی حتی کہ چوڑائی میں پھیل جائے۔“
۔ اسماعیل بن علیۃ، عبداللہ بن سوادۃ، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے دھوکا نہ کھائے اور نہ ہی سفیدی سے جو کہ صبح کے وقت ستونوں کی طرح ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ ظاہر ہوجائے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”تمہیں بلال کی اذان دھوکا میں مبتلا نہ کرے اور نہ یہ سفیدی (جو صبح کو ستون کی طرح ہوتی ہے) حتی کہ وہ چوڑائی میں پھیل جائے۔“
حماد، ابن زید، عبداللہ بن سوادۃ قشیری، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے اپنی سحری سے دھوکا نہ کھائے اور نہ ہی افق کی لمبی سفیدی سے یہاں تک کہ وہ پھیل جائے۔ حماد نے اپنے دونوں ہاتھوں (کے اشارے) سے بیان کیا کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد چوڑائی میں پھیلنے والی (سفیدی) سے تھی۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”تمہیں سحری سےبلال کی اذان دھوکےمیں مبتلانہ کرے اور افق کی اس طرح اوپر کو لمبائی میں اٹھنے والی سفیدی، حتی کہ وہ اس طرح چوڑائی میں پھیل جائے۔“ حماد نے اپنے دونوں ہاتھوں کو چوڑائی میں پھیلا کر اس کی نقل اتاری۔
عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، سوادہ، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ خطبہ دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے دھوکا نہ کھائے اور نہ اس سفیدی سے یہاں تک کہ فجر ظاہر ہوجائے۔
سواد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے سمرہ جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطبہ دیتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا: ”بلال کی نداء تمھیں دھوکا نہ دے اور نہ سفیدی حتی کہ فجر ظاہر ہو جائے یا فرمایا فجر پھوٹ پڑے۔“