شعبہ نے کہے: ہمیں قتادہ سے سنا، وہ ابو حسان سے حدیث بیان کررہےتھے، انھوں نے عبیدہ سے اور انھوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے دن فرمایا: ”ان لوگوں نے ہمیں درمیانی نماز سے مشغول کیے رکھا حتی کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو اور گھروں کو یا (فرمایا:) ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔ ”گھروں یا پیٹوں کے بارےمیں شعبہ کو شک ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے وقت فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز سے مشغول رکھا، حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو یا گھروں کو یا پیٹوں کو آگ سے بھر دے (گھروں اور پیٹوں کے بارے میں شعبہ کو شبہ لاحق ہوا)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احزاب کے دن (یہ غزوہ مشہور ہے ہجرت کے چوتھے سال ہوا ہے اور بعض نے کہا: پانچوایں سال ہوا ہے) خندق کے ایک راستہ پر بیٹھے تھے اور فرماتے تھے: ”ان کافروں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے باز رکھا یہاں تک کہ آفتاب ڈوب گیا۔ ان کی قبروں اور گھروں کو یا قبروں اور پیٹوں کو اللہ آگ سے بھر دے۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1424]
شتیر بن شکل نےحضرت علی رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاحزاب کے دن فرمایا: ”انھوں نے ہمیں درمیانی نماز (یعنی) عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔“ پھر آپ نے اسے رات کے دونوں نمازوں مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھا۔ (مغرب کا وقت جارہا تھا اس لیے آخری وقت میں پہلے مغرب پڑھی، پھر عصر کی قضا پڑھی، پھر عشاء پڑھی۔)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے دن فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں رات کی نمازوں مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھا۔
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مشرکوں نے (جنگ میں مشغول رکھ کر) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نمازسے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انھوں نےہمیں درمیانی نماز، عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں میں آگ بھر دے۔“ یا فرمایا: ” اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔“(ملأ کی جگہ حشا کا لظف ارشاد فرمایا، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔) فائدہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں نماز عصرکی اہمیت کس قدر تھی، ان احادیث سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں سنگ باری برداشت کی لیکن بد دعا نہ دی، احد میں جسم مبارک زخمی ہوا، دندان مبارک شہید ہوئے، ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آپ کے چچا سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے لیکن بد دعا نہ دی۔ جنگ خندق میں ناز عصرفوت ہو گئی تو کافروں کو بد دعا دی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نفع و نقصان کا یہی معیار پیش نظر رکھے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نماز سے مشغول رکھا، یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“، یا فرمایا: مَلَأَ اللهُ کی بجائے حَشَا اللہُ أَجْوَافَهُمْ، وَقُبُورَهُمْ نَارًا فرمایا۔ مَلَا اور حَشَا دونوں کا معنی بھرنا ہے، اجواف اور بطون پیٹوں کو کہتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے روایت ہے، کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لیے قرآن مجید لکھوں فرمایا: جب تم اس آیت پر پہنچوں (حفظو علی الصلوت والصلوۃ الوسطی) تو مجھے بتانا چنانچہ جب میں آیت پر پہنچا تو انھیں آگاہ کیا، انھوں نے مجھے لکھوایا: حافظ علی الصلوت والصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر، قوموا اللہ قانتین ” نمازوں کی حفاظت کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی، یعنی نماز عصر کی اور اللہ کے حضور عاجزانہ قیام کرو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےایسے ہی سنا۔
حضرت عائشہ ؓ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس کی روایت ہے کہ مجھے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے لیے قرآن مجید لکھنے کا حکم دیا اور فرمایا: جب تم اس آیت ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ (بقرہ: ۲۳۸)”نمازوں کی نگہداشت کرو، خاص کر درمیانی نماز کی“ تو مجھے اطلاع کرنا، تو جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے لکھوایا، ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ﴿وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرة: 238)”نمازوں کا اہتمام و حفاظت کرو، خاص کر درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز کا اور اللہ کے حضور عاجزانہ انداز سے کھڑے ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے بتایا میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی سنا ہے۔
فضیل بن مرزوق نے شقیق بن عقبہ سے اور انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہ آیت (اس طرح) حافظ علی الصلوٰت وصلاۃ العصر)) نازل ہوئی، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا ہم نے اسے پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسےمنسوخ کر دیا اور آیت اس طرح اتری: (حفظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ)”نمازوں کی نگہداشت کرو اور (خصوصا) درمیان کی نماز کی“ اس پر ایک آدمی نے، جو شقیق کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان سے کہا: تو پھر اس سے مراد عصر کی نماز ہوئی؟ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ یہ آیت کیسے اتری اور اللہ تعالیٰ نے کیسے اسے منسوخ کیا، (اصل حقیقت) اللہ ہی بہتر جانتا ہے
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ،﴾ نازل ہوئی، جب تک اللہ کو منظور ہوا، ہم نے اس طرح پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو تبدیل کر دیا اور آیت اس طرح اتری: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾(البقرة: 238) تو ایک انسان جو شقیق کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ان سے پوچھا: تو پھر اس سے مراد، عصر کی نماز ہے۔ تو حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: میں تمہیں بتا چکا ہوں، آیت کیسےاتری اور اللہ تعالیٰ نے کیسے اسے تبدیل کیا۔ اصل حقیقت اللہ ہی خوب جانتا ہے۔
اسود بن قیس نے شقیق بن عبہ سے، انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم یہ آیت ایک عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (اسی طرح) پڑھتے رہے۔۔۔۔۔ (آگے) فضیل بن مرزوق کی (سابقہ) حدیث کی مانند ہے۔
امام مسلم فرماتے ہیں: یہی روایت اشجعی نے سفیان ثوری کے واسطے سے اسود بن قیس کی شقیق بن عقبہ سے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنائی، انہوں نے کہا، ہم ایک عرصہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے رہے، جیسا کہ فضیل بن مرزوق کی حدیث ہے۔
معاذ بن ہشام نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں میرے والد نے یحییٰ بن ابی کثیر سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں ابو سلمہ بن عبدالرحمن نےحضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی کہ خندق کے روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کی: اے اللہ کےرسول! اللہ کی قسم! میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا تھا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کو آگیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ کی قسم! میں نے (بھی) نہیں پڑھی۔“ پھر ہم (وادی) بطحان میں اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضول کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے غروب ہو جانے کے بعد عصرکی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ خندق کے روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی کافروں کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا حتیٰ کہ سورج غروب ہونے کو ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کی قسم! میں نے بھی نہیں پڑھی۔“ پھر ہم وادی بطحان میں اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے غروب ہو جانے کے بعد عصر کی نماز پڑھی پھر اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔