حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مشرکوں نے (جنگ میں مشغول رکھ کر) رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نمازسے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انھوں نےہمیں درمیانی نماز، عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں میں آگ بھر دے۔“ یا فرمایا: ” اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔“(ملأ کی جگہ حشا کا لظف ارشاد فرمایا، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔) فائدہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرمیں نماز عصرکی اہمیت کس قدر تھی، ان احادیث سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں سنگ باری برداشت کی لیکن بد دعا نہ دی، احد میں جسم مبارک زخمی ہوا، دندان مبارک شہید ہوئے، ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا جن میں آپ کے چچا سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے لیکن بد دعا نہ دی۔ جنگ خندق میں ناز عصرفوت ہو گئی تو کافروں کو بد دعا دی۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نفع و نقصان کا یہی معیار پیش نظر رکھے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نماز سے مشغول رکھا، یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے ہمیں درمیانی نماز عصر کی نماز سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے“، یا فرمایا: مَلَأَ اللهُ کی بجائے حَشَا اللہُ أَجْوَافَهُمْ، وَقُبُورَهُمْ نَارًا فرمایا۔ مَلَا اور حَشَا دونوں کا معنی بھرنا ہے، اجواف اور بطون پیٹوں کو کہتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1426
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے نماز کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شغف اور شوق کا اظہار ہوتا ہے کہ آپﷺ کو اس کے تاخیر سے پڑھنے کا اتنا رنج اور قلق ہوا کہ آپﷺ نے اس کا باعث بننے والے مشرکوں کے خلاف دعا کی حالانکہ آپﷺ نے طائف کی وادیوں میں پیغام توحید سنانے پر لہولہان کرنے، دل آزار باتیں کہنے اور غنڈوں اور اوباشوں کے آوازیں کسنے پر ان کے خلاف دعا نہیں کی تھی، اس طرح مشرکوں کے ہر قسم کے ظلم و ستم روا رکھنے پر ان کے خلاف دعا نہیں کی۔ لیکن غزوہ خندق کے موقعہ پر نماز کا وقت نکل جانے پر آپﷺ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا لیکن آج ہماری حالت کیا ہے؟ بلا وجہ اور بلا عذر نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ (2) غزوہ خندق تک نماز خوف (جنگ کی نماز) کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے آپﷺ نے جنگ والی نماز نہیں پڑھی تھی اور ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ الصلوۃ الوسطی کےمراد نماز عصر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1426
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث686
´نماز عصر کی محافظت۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر کی نماز سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے ہمیں عصر کی نماز سے روکے رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 686]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہو کہ درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جس کی تاکید قرآن مجید میں ان الفاظ میں وارد ہے: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ ﴾(البقره: 238/2) نمازوں کی حفاظت کرواور(خاص طور پر) درمیانی نماز کی۔
(2) نماز سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا حملہ جاری رہا جس کی وجہ سے ہم لوگ جنگ میں مشغول رہے اور نماز پڑھنے کا موقع نہ ملا۔
(3) جہاد ایک عظیم عمل ہے جسے حدیث میں بجا طور پر اسلام کے کوہان کی بلندی فرمایا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی حرمة الصلوۃ، حدیث: 2612) لیکن جہاد کے اس عظیم ترین عمل میں مشغولیت بھی نماز چھوڑنے کا جواز نہیں بن سکتی۔ نماز کی اہمیت جہاد سے بھی بڑھ کر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 686