حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت میں سب سے کم درجے پر وہ آدمی ہوگا جس کے چہرے کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی طرف سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دے گا اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت دکھائی جائے گی، وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں ہو جاؤں .....“ آگے انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح روایت بیان کی لیکن یہ الفاظ ذکر نہیں کیے: ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے..... ” البتہ انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا: ”اور ا للہ تعالیٰ اسے یاد دلاتا جائے گا: فلاں چیز مانگ، فلاں چیزطلب کر۔ اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تمہارا ہے اور اس سے دس گناہ اور بھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں میں اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی: اللہ کی حمد جس نے تمہیں ہمارے لیے زندہ کیا اور ہمیں تمہارے لیے زندگی دی۔ آپ نے فرمایا: تو وہ کہے گا: جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے ایسا کسی کو نہیں دیا گیا۔“
حضرت سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اہلِ جنت میں سےسب سے کم مرتبہ وہ آدمی ہوگا، کہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو دوزخ سے جنت کی طرف پھیر دے گا، اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت نظر آئے گی، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے میں، اس کے سایہ میں رہوں گا۔“ اور ابنِ مسعود ؓ کی طرح حدیث بیان کی اور یہ الفاظ بیان نہیں کیے: ”کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! تجھے مجھ سے مانگنےسے کون سی چیز روک سکتی ہے.....۔“ آخر تک، اور اس میں اتنا اضافہ ہے ” اور اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا، فلاں فلاں چیز کا سوال کر! اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے ملے گا اور اس سے دس گنا زائد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگا، اور حور العین سے اس کی دونوں بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی: شکر کے لائق وہ اللہ ہے جس نے تجھے ہمارے لیے زندہ کیا، اور ہمیں تیرے لیے زندگی دی۔ آپ نے فرمایا: تو وہ کہے گا: جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے، وہ کسی ایک کو نہیں دیا گیا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 188
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4392)»
ہمیں سعید بن عمر و اشعثی نے حدیث بیان سنائی، کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی، انہوں نے مطرف اور (عبد الملک) ابن ابجر سے، انہوں نے شعبی سے روایت کی، کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے، انشاء ا للہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ) روایت کے طور پر سنا، نیز ابن ابی عمر نے سفیان سے، انہوں نے مطرف اور عبدالملک بن سعید سے اور ان دونوں نے شعبی سے سن کر حدیث بیان کی، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خبر دی، کہا: میں نے ان سے منبر پر سنا، وہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے تھے، نیز بشر بن حکم نے مجھ سے بیان کیا (روایت کے الفاظ انہیں کے ہیں) سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں مطرف اور ابن ابجر نے حدیث بیان کی، ان دونوں نے شعبی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ منبر پر لوگوں کو (یہ) حدیث سنا رہے تھے۔ سفیان نے کہا: ان دونوں (استادوں) میں سےایک (میرا خیال ہے ابن ابجر) نے اس روایت کو مرفوعاً (جسے صحابی نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو) بیان کیا، آپ نے فرمایا: ”موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رب تعالیٰ سے پوچھا: جنت میں سب سے کم درجے کا (جنتی) کون ہو گا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ (ایسا) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا، وہ کہے گا: میرے رب! کیسے؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر ہو چکے ہیں اور جولینا تھا سب کچھ لے چکے ہین۔ تو اس سے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں، اللہ فرمائے گا: وہ (ملک) تمہاراہوا، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر بار وہ آدمی (بے اختیار) کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوگیا۔ اللہ عز وجل فرمائے گا: یہ (سب بھی) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا، اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، پھر (موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پروردگار!تو وہ سب سے اونچے درجے کا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں، ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی (جس کے لیے چاہا محفوظ کر لیا۔)(عزت کا) وہ (مقام) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔ فرمایا: اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے: ”کوئی ذی روح نہین جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی کسی ٹھنڈک چھپاکے رکھی گئی ہے۔“
امام صاحب مختلف اساتذہ کی سندوں سے شعبی سے بیان کرتے ہیں، کہ میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے منبر پر سنا وہ لوگوں کو بتا رہے تھے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ ؑ نے اپنے رب سے پوچھا، جنت میں سب سے کم مرتبہ جنتی کون ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ ایک شخص ہے۔ جب جنتی جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، اس کے بعد آئے گا، تو اسے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا! تو وہ کہے گا: اے میرے رب! کیونکر؟ لوگ اپنی اپنی جگہوں میں اتر چکے ہیں اور اپنی عزت وکرامت لے چکے ہیں، یا اپنے گھروں کارخ کر چکے ہیں۔ تو اسے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو، کہ تمھیں جنت میں اتنا علاقہ دے دیا جائے جتنا دنیا میں بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کی ملکیت میں ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے اتنا علاقہ دیا اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، پانچویں بار وہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ فرمائے گا- یہ تجھے دیا اور اس سے دس گنا اور دیا اور تیرے لیے جس کو تیرا جی چاہے، اور تیری آنکھوں کو بھائے۔ تو وہ کہے گا: میں راضی ہوں، اے میرے رب! پھر موسیٰؑ نے پوچھا: اے میرے رب! تو سب سے بلند مرتبہ کو کیا ملے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے چنا، ان کی عزت و راحت کو اپنے ہاتھوں سے جمایا اور میں نے اس پر مہر لگائی۔ (ان نعمتوں کو) کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور کسی دل میں ان کا خیال نہیں گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تصدیق اللہ عز و جل کی کتاب میں موجود ہے ”کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا نعمتیں چھپائی گئی ہیں۔“(السجدہ: 17)
ترقیم فوادعبدالباقی: 189
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة السجدة وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3198) انظر ((التحفة)) برقم (11503) 329»
ہا: میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ منبر پر کہہ رہے تھے: بے شک موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اللہ عز وجل سے اہل جنت میں سے سب سے کم حصہ پانے والے کے بارے میں پوچھا........ اور سابقہ حدیث کی طرح روایت (سفیان کے بجائے) عبیداللہ اشجعی نے عبدالملک ابن ابجر سے روایت کی، انہوں نے ک بیان کی۔
حضرت مغیرہ ؓ نے منبر پر کہا: ”بے شک موسیٰؑ نے اللہ عزوجل سے پوچھا: کہ اہلِ جنت سے سب سے کم تر درجہ یا قلیل حصہ کس کا ہو گا؟“ اور مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی-
ترقیم فوادعبدالباقی: 189
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (464)»
محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے معرور بن سوید سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں اہل جنت میں سے سب کے بعد جنت میں جانے والے اور اہل دوزخ میں سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے کو جانتا ہوں، وہ ایک آدمی ہے جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا: اس کے سامنے اس کے چھوٹے گنا ہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ اٹھا رکھو (ایک طرف ہٹادو۔) تو اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کہا جائے گا: فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے۔ وہ کہے گا: ہاں، وہ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگا، (اس وقت) اسے کہا جائے گا: تمہارے لیے ہر برائی کے عوض ایک نیکی ہے۔ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے بہت سے ایسے (برے) کام کیے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔“ میں (ابو ذر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نمایاں ہو گئے۔
حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے جنتی کو جانتا ہوں، اور جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلنے والا ہوگا، ایک آدمی ہے اسے قیامت کے دن لایا جائے گا، تو کہا جائے گا، تو کہا جائے گا: اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہ اٹھا رکھو، تو اس کے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں گے اور کہا جائے گا: تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے؟ اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے؟ وہ کہے گا: ہاں! وہ انکار نہیں کر سکے گا، اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہوگا، تو اسے کہا جائے گا: تیرے لیے ہر بدی کے عوض نیکی ہے۔ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے بہت سے ایسے کام کیے ہیں، جنھیں میں یہاں دیکھ نہیں رہا ہوں۔“(حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ کو ہنستے دیکھا، یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 190
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في صفة جهنم، باب: ما جاء ان للنار نفسين، وما ذكر من يخرج من النار من اهل التوحيد وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2596) انظر ((التحفة)) برقم (11983)»
ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے (جنت اور جہنم میں) وارد ہونے کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا: ہم قیامت کے دن فلاں فلاں (سمت) سے آئیں گے (دیکھو)، یعنی اس سمت سے جو لوگوں کےاوپر ہے۔ کہا: سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور جن (معبودوں) کی بندگی کرتی تھیں ان کے ساتھ بلائی جائیں گی، ایک کے بعد ایک، پھر اس کے بعد ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا اور پوچھے گا: تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ توسب کہیں گے: (اس وقت) جب ہم تمہیں دیکھ لیں۔ تو وہ ہنستا ہوا ان کےسامنے جلوہ افروز ہو گا۔ انہوں نے کہا: وہ انہیں لے کر جائے گااور وہ اس کے پیچھے ہوں گے، ان میں ہر انسان کو، منافق ہویا مومن، ایک نور دیا جائے گا، وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے۔ اور جہنم کے پل پر کئی نوکوں والے کنڈے اور لوہے کے سخت کانٹے ہوں گے اور جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ اسے پکڑ لیں گے، پھر منافقوں کا نور بجھا دیا جائے گا اور مومن نجات پائیں گے تو سب سے پہلا گروہ (جو) نجات پائے گا، ان کے چہرے چودہویں کے چاند جیسے ہوں گے (وہ) ستر ہزار ہوں گے، ان کا حساب نہیں کیا جائے گا، پھر جو لوگ ان کے بعد ہوں گے، ان کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر اسی طرح (درجہ بدرجہ۔) اس کے بعد پھرشفاعت کا مرحلہ آئے گااور (شفاعت کرنے والے) شفاعت کریں گے حتی کہ ہر وہ شخص جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا اور جس کےدل میں جو کے وزن کے برابر بھی نیکی (ایمان) ہو گی۔ ان کی جنت کے آگے کے میدان میں ڈال دیا جائے گا اور اہل جنت ان پر پانی چھڑکنا شروع کر دیں گے حتی کہ وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں اگ آتی ہے اور اس (کے جسم) کا جلا ہوا حصہ ختم ہو جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا حتی کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا مزید عطا کر دیا جائے گا۔
ابو زبیر بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے (جہنم پر) گزرنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا: ”ہم قیامت کے دن فلاں فلاں طرف سے آئیں گے دیکھ لیجیے، یعنی: اس کو لوگوں کے اوپر سے کہا، تو امتیں اپنے اپنے بتوں سمیت بلائی جائیں گی اور جن کی بندگی کرتی تھیں۔ پہلی پھر پہلی، (ترتیب کے ساتھ) پھر ہمارے پاس، اس کے بعد ہمارا رب آئے گا اور پوچھے گا: تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ تو وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں! تو وہ کہیں گے: یہاں تک کہ ہم تجھے دیکھ لیں، وہ ہنستا ہوا ان کو دکھائی دے گا، تو وہ ان کے ساتھ چلے گا، اور وہ اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اور ان میں سے ہر انسان کو، وہ منافق ہو یا مومن، نور دیا جائے گا، پھر وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے۔ اور جہنم کے پل پر گوشت بھوننےکی لوہے کی سلاخیں اور گھوکرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا، وہ پکڑ لیں گے، پھر منافقوں کا نور بجھ جائے گا، پھر مومن نجات پا لیں گے، تو پہلا گروہ، جن کے چہرے چودھویں کے چاند جیسے ہوں گے، نجات پائے گا۔ ستر ہزار، جن کا محاسبہ نہیں ہو گا۔ پھر ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے، جن کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر ان کے بعد ان سے کم درجہ لوگ ہوں گے۔ پھر شفاعت شروع ہوگی اور لوگ سفارش کریں گےحتیٰ کہ آگ سے وہ انسان نکل جائے گا جس نے (خلوصِ نیت سے) "لا إلٰه إلا اللہ" کہا ہوگا، اور اس کے دل میں جَو برابر نیکی ہوگی۔ تو ان کو جنت کے آنگن (سامنے کی کھلی جگہ) میں ڈال دیا جائے گا، اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکنے لگیں گے حتیٰ کہ وہ ایسے پھلے پھولیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں نشوون پاتی ہے، حتیٰ کہ آگ سے نکلنے والے کی سوزش (جلن) ختم ہو جائے گی، پھر اللہ اس سے پوچھے گا: یہاں تک کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ، اس کا دس گنا دے گا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 191
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2841)»
سفیان بن عیینہ نے عمر (بن دینار) سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: انہوں نے اپنے دونوں کانٔن سے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنی، آپ فرما رہے تھے: ” اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔“
حضرت جابر ؓسے روایت ہے، کہ انھوں نے اپنے کان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فر ما رہے تھے: ”اللہ تعالی کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 191
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2545)»
حماد بن زید نے کہا: میں نے عمر وبن دینارسے پوچھا: کیا آپ نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو شفاعت کے ذریعے سے آگ میں سے نکالے گا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔
حماد بن زید کہتے ہیں، عمرو بن دینار سے پوچھا گیا: کیا آپ نے جابر بن عبداللہ ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو سفارش سے آگ سے نکالے گا؟“ تو اس نے کہا: ہاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 191
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب صفة الجنة والنار برقم (6558) انظر ((التحفة)) برقم (2514)»
قیس بن سلیم عنبری سے کہا: یزید الفقیر نے مجھے حدیث بیان کی کہ حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ کچھ لوگ آگ میں سے نکالے جائیں گے، وہ اپنے چہروں کے علاوہ (پورے کے پورے) اس میں جل چکے ہوں گے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“
حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ لوگ آگ سے نکالے جائیں گے، ان کے چہروں کے اطراف کے سوا وہ اس میں جل چکے ہوں گے، حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 191
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»
م، یعنی محمد بن ابی ایوب نے کہا: مجھے یزید الفقیر نےحدیث سنائی، انہوں نے کہا: کہ خارجیوں کے نظریات میں سے ایک بات میرے دل میں گھر کر گئی تھی۔ ہم ایک جماعت میں نکلے جس کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کریں اور پھر لوگوں کو خلاف خروج کریں (جنگ کریں۔) ہم مدینہ سے گزرے تو ہم نےدیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ (ایک ستون کے پاس بیٹھے) لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا رہے ہیں، انہوں نے اچانک «الجہمیین»(جہنم سے نکل کر جنت میں پہنچنے والے لوگوں) کا تذکرہ کیا تو میں ان سے پوچھا: اے رسول اللہ کے ساتھی! یہ آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ فرماتا ہے: ”بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا اس کو رسوا کر دیا۔“ اور: ”وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔“ تویہ کیا بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں؟ (یزیدنے) کہا: انہوں نے (جواب میں) کہا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہاں!انہوں نے کہا: کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں سنا ہے، یعنی وہ مقام جس پر قیامت کے دن آپ کومبعوث کیا جائے گا؟ میں نے کہا: ہاں! انہوں نے کہا: بے شک و ہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام محمود ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں (جہنم سے) نکالنا ہو گا نکالے گا، پھر انہو ں نے (جہنم پر) پل رکھے جانے اور اس پر سے لوگوں کے گزرنے کا منظر بیان کیا۔ (یزید نے) کہا: مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا ہوں۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے بتایا: کچھ لوگ جہنم میں چلے جانے کے بعد اس سے نکلیں گے، یعنی انہوں نےکہا: وہ اس طرح نکلیں گے جیسے وہ ”تلوں“(کےپودوں) کی لکڑیاں ہوں، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہو ں گے اور اس میں نہائیں گے، پھر اس میں سے (کورے) کاغذوں کی طرح (ہوکر) نکلیں گے، پھر (یہ حدیث سن کر) ہم واپس آئے اورہم نے کہا: تم پر افسوس! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ بوڑھا (صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟ اور ہم نے (سابقہ رائے سے) رجوع کر لیا۔ اللہ کی قسم! ہم میں سے ایک آدمی کے سوا کسی نے خروج نہ کیا، یا جس طرح (کے الفاظ میں) ابو نعیم نے کہا۔
یزید فقیر سے روایت ہے، کہ خارجیوں کی آراء میں سے ایک رائے میرے دل میں گھر کر گئی، ہم ایک بڑی تعداد کی جماعت کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے، کہ پھر ہم لوگوں میں اس رائے کی تبلیغ کے لیے نکلیں گے۔ تو ہم مدینہ سے گزرے، وہاں دیکھا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ایک ستون کے پاس بیٹھ کر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہے ہیں، انھوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا، تو میں نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! یہ آپ لوگ کیا بیان کر رہے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو یہ ہے: ”بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا تو اس کو رسوا کر دیا۔“(آلِ عمران: 129) اور فرمایا: ”وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اس میں لوٹا دیے جائیں گے۔“(السجدہ: 20) تو یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تو قرآن پڑھتا ہے؟“ میں نے کہا ہاں! انھوں نے کہا: ”کیا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں سنا ہے؟ یعنی وہ مقام، جو آپ کو قیامت کے دن دیا جائے گا۔ “ میں نے کہا ہاں! انھوں نے کہا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، وہ مقام ِ محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا، جن کو نکالنا چاہے گا۔“ پھر انھوں نے پُل رکھنے، اور اس پر لوگوں کے گزرنے کو بیان کیا، مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو یاد نہیں رکھ سکا۔ ہاں اتنی بات ہے، انھوں نے کہا: ”کچھ لوگ جہنم میں رہنے کے بعد اس سے نکلیں گے۔“ ابو نعیم نے کہا: ”تو وہ نکلیں گے، گویا کہ تلوں کی لکڑیاں ہیں، (یعنی جلے ہوئے بھنے ہوئے) تو وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہوں گے، اور اس میں نہائیں گے، پھر اس سے کاغذوں کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔“ پھر ہم واپس آئے، اور ایک دوسرے کو کہا: تم پر افسوس! کیا تم سمجھتے ہو کہ بوڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے؟ اور ہم (اس رائے) سے لوٹ آئے، تو اللہ کی قسم! ہم میں سے صرف ایک آدمی الگ رہا، یا جیسا کہ ابو نعیم نے کہا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 191
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»
ابو عمران اور ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوزخ سے چار آدمی نکلیں گے، انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک متوجہ ہو گا اور کہے گا: اے میرے رب!جب تو نے مجھے اس سے نکال ہی دیا ہے تو اب دوبارہ اس میں نہ ڈالنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دے دے گا۔“
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے، اور انھیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، تو ان میں سے ایک مڑ کر دیکھےگا، اور کہے گا: اے میرے رب! جب تو نے مجھے ا س سے نکال ہی دیا ہے، تو اب اس میں نہ لوٹا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے نجات دے دے گا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 192
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (347 و 1073)»
ابو کامل فضیل بن حسین جحدری اور محمد بن عبید غبری نے کہا: (الفاظ ابو کامل کے ہیں) ہمیں ابو عوانہ نے قتادہ سےحدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور وہ اس بات پر فکر مند ہوں گے (کہ اس دن کی سختیوں سے کیسے نجات پائی جائے؟)(ابن عبید نے کہا: ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی) او ر وہ کہیں گے: اگر ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش لائیں تاکہ وہ ہمیں اس جگہ (کی سختیوں) سے راحت عطا کر دے۔ آپ نے فرمایا: چنانچہ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اورکہیں گے: آپ آدم ہیں، تمام مخلوق کے والد، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں کہ وہ ہمیں اس (اذیت ناک) جگہ سے راحت دے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس مقام پر نہیں، پھر وہ اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس کی وجہ سے اپنےرب سے شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (لوگوں کی طرف) مبعوث فرمایا، آپ نے فرمایا: تو اس پر لوگ نوح رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے۔ وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں اور وہ اپنی غلطی کو، جس کا ارتکاب ان سے ہو گیا تھا، یادکرکے اس پر اپنے رب کی شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل (خالص دوست) بنایا ہے۔ وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی غلطی کو یادکریں گےجو ان سے سرزد ہو گئی تھی اور اس پر اپنے رب سے شرمندہ ہوں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نےکلام کیا اور انہیں تورات عنایت کی۔ لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں اور اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس پر اپنے رب سے شرمندگی محسوس کریں گے (او رکہیں گے:) لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس آئیں گے۔ وہ (بھی یہ) کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ ایسے برگزیدہ عبد (بندت) ہیں جس کے اگلے پچھلے گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کیے جا چکے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پھر وہ میرے پاس آئیں گے، میں اپنے رب (کے پاس حاضری) کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی، اسے دیکھتے ہی میں سجدے میں گر جاؤں گا، تو جب تک اللہ چاہے گا مجھے اس حالت (سجدہ) میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کودیاجائے گا، سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب تعالیٰ کی ایسی حمد وستائش بیان کروں گا جو میرا رب عز وجل خود مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا۔ وہ میرے لیے حد مقرر کر دے گا، میں (اس کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر میں واپس آکر سجدے میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کو ملے گا، سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جومیرا رب مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا تووہ میرے لیے پھر ایک حد مقرر فرما دےگا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔“(حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا: مجھے یاد نہیں، آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا) پھر میں کہوں گا: ”اےمیرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کا (دوزخ میں) ہمیشہ رہنا (اللہ کی طرف سے) لازمی ہو گیا ہے۔“ ابن عبید نےاپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: یعنی جس کا ہمیشہ رہنا لازمی ہو گیا۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا، اور وہ اس کے لیے فکر مند ہوں گے۔“(کہ اس پریشانی سے کیسے نجات پائی جائے) ابنِ عبید نے کہا: ”اس غرض کے لیے (فکر) ان کے دل میں ڈالا جائے گا، تو وہ کہیں گے: اے کاش!ہم اپنے رب کے حضور کسی سفارشی کو لائیں؛ تاکہ وہ ہمیں اس جگہ سے آرام دلوائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدم ؑ کےپاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدمؑ ہیں! تمام مخلوق کے باپ، اللہ تعالی نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور تیرے اندر اپنی روح ڈالی (یعنی اپنی پیدا کردہ روح)، اور فرشتوں کو حکم دیا، انھوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں، کہ وہ ہمیں اس جگہ سے (اس جگہ کی تکلیف سے) آرام پہنچائے۔ تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا منصب نہیں (میں اس کے اہل نہیں)، تو وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا (یا اس کو بیان کر کے) اس کی بناء پر اپنے رب سے شرمائیں گے، لیکن تم نوح ؑ کے پاس جاؤ! وہ پہلا رسول ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو لوگ نوح ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں، اور وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا، اس کو یاد کر کے اپنے رب سےشرمائیں گے، اور (کہیں گے) تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! جسے اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے۔ تو وہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی خطا کو یاد کریں گے جو ان سے ہوئی تھی، اور اس کی وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! جن کو اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے کا شرف بخشا، اور انھیں تورات عنایت کی۔ تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، تو وہ بھی کہیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، اور اپنی خطا جو ان سے ہوئی تھی یاد کر کے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور اس کے کلمہ کے پاس جاؤ! تو لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ بھی یہی کہیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! جو ایسا بندہ ہے، جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کیے جا چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ میرے پاس آئیں گے، تو میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا، (تاکہ میں سفارش کر سکوں) تو مجھے اجازت دی جائے گی، تو جب میں اسے (اللہ تعالیٰ کو) دیکھوں گا، سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو جب تک وہ چاہے گا مجھے اس حالت میں چھوڑے گا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے! دیے جاؤ گے، سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھا لوں گا، اپنے رب کی ایسی حمد بیان کروں گا، جو میرا رب (اس وقت) سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا، میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں (اسی حد کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر واپس آکر میں سجدہ ریز ہوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اس حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے اے محمد! کہیے! تمھاری بات سنی جائے گی۔ مانگیے! دیے جاؤ گے۔ سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا، جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا، تو وہ میرے لیے ایک حد مقرر فر دے گا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔“ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی دفعہ فرمایا: ”تو میں کہوں گا: اے میرے رب! آگ میں صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جنھیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کے لیے دوزخ میں ہمیشگی ثابت ہے۔“ ابنِ عبید نے اپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: ”جس کا ہمیشہ رہنا ضروری ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 193
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6565) انظر ((التحفة)) برقم (4136)»
دوسری سند سے جس میں (ابو عوانہ کے بجائے) سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مومن جمع ہوں گے اور اس (کی ہولناکیوں سے بچنے) کی فکر میں مبتلا ہوں گے یا یہ بات ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی۔“ .... (آگے) ابو عوانہ کی حدیث کےمانند ہے، البتہ انہوں نے اس حدیث میں یہ کہا: ”پھر میں چوتھی بار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گا (یا چوتھی بار لوٹوں گا) اور کہوں گا: اے میرے رب! ان کے سوا جنہیں قرآن (کے فیصلے) نے روک رکھاہے اور کوئی باقی نہیں بچا۔“
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مومن جمع ہوں گے، اور اس (پریشانی سے بچنے کی) فکر کریں گے، یا انھیں اس فکر کا الہام ہوگا۔“ جیسا کہ اوپر ابو عوانہ کی حدیث گزری ہے، اور اس حدیث میں ہے: ”پھر میں چوتھی بار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گا، یا چوتھی بار لوٹوں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں، جنھیں قرآن نے روک رکھا ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 193
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في التفسير، باب: قول الله ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ برقم (4476) مطولا - وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الشفاعة برقم (4312) انظر ((التحفة)) برقم (1171)»
معاذ بن ہشام نے کہا: میرے والد نے مجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمع کرے گا، پھر اس (دن کی پریشانی سے بچنے) کے لیے ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی۔“ .... یہ حدیث بھی ان دونوں (ابوعوانہ اور سعید) کی حدیث کی طرح ہے، چوتھی دفعہ کے بارے میں یہ کہا: ”تو میں کہوں گا: اے میرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں جسے قرآن (کے فیصلے) نے روک لیا ہے، یعنی جس کے لیے (آگ میں) ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمع کرے گا، پھر اس دن کی پریشانی سے بچنے کے لیے الہام ہو گا۔“ یہ حدیث (ہشام کی) بھی ان دونوں (ابو عوانہ اور سعید) کی طرح ہے۔ چوتھی کے بارے میں یہ بتایا: ”تو میں کہوں گا: اے میرے رب! آگ میں صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں، جنھیں قرآن کے فیصلے کے مطابق روک لیا گیا ہے، یعنی جن کے لیے ہمیشگی ثابت ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 193
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: قول الله ﴿ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ﴾ مطولا وفى التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ مطولا برقم (7410) وفى، باب: ما جاء في قول الله تعالى ﴿ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ برقم (7450) و من، باب: ما جاء في قوله عز وجل ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴾ برقم (7516) انظر ((التحفة)) برقم (1357)»
محمد بن منہال الضریر (نابینا) نے کہا: ہمیں یزید بن زریع نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں سعید بن ابی عروبہ اور دستوائی (کپڑے) والے ہشام نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ....، اسی طرح ابوغسان مسمعی اور محمد بن مثنیٰ نےکہا: میرے والد نےمجھے قتادہ کے حوالے سے حدیث سنائی، (انہوں نے کہا:) ہمیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کو آگ سے نکال لیا جائےگا جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور ا س کےدل میں ایک جوکے وزن کے برابر خیر ہوئی، پھر ایسے شخص کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر ہوئی، پھر اس کو آگ سے نکالا جائے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کےدل میں ایک ذرے کے برابر بھی خیر ہوئی۔“(گزشتہ متعدد احادیث سے وضاحت ہوتی ہے کہ خیر سے مراد ایمان ہے۔) ابن منہال نے اپنی روایت میں اضافہ کیا کہ یزید نے کہا: میں شعبہ سے ملا اور انہیں یہ حدیث سنائی تو شعبہ نےکہا: ہمیں یہ حدیث قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائی، البتہ شعبہ نے ”ایک ذرے“ کے بجائے ”مکئی کا دانہ“ کہا۔ یزید نے کہا: اس لفظ میں ابو بسطام (شعبہ) سے تصحیف (حروف میں اشتباہ کی وجہ سے غلطی) ہو گئی۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں جَو کے دانہ کے برابر خیر ہوگی اس کو دوزخ سے نکالا جائے گا، پھر آگ سےاس کو نکالا جائے گا، جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں گندم کے دانہ کے برابر خیر ہو گی، پھر آگ سے وہ نکالا جائے گا، جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں ذرہ برابر نیکی ہوگی۔“ ابنِ منہال نے اپنی روایت میں یزید سے یہ اضافہ کیا، کہ میں شعبہ کو ملا اور اسے یہ حدیث سنائی، تو شعبہ نے کہا، ہمیں یہی حدیث قتادہ نے حضرت انس بن مالک ؓ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائی، مگر شعبہ نے "ذَرَّۃٌ " کی جگہ "ذُرَّۃٌ" کہا، یزید نے کہا: اس لفظ میں ابو بسطام (شعبہ) نے تصحیف کی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 193
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((الايمان)) باب: زيادة الايمان ونقصانه برقم (44) وفي التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾ برقم (7410) والترمذي في ((جامعه)) في صفة جهنم، باب: ما جاء ان للنار نفسين وما ذكر من يخرج من الناس من اهل التوحيد برقم (2593) وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الشفاعة برقم (4312) انظر ((التحفة)) برقم (11356 و 1194 و 1272)»
معبد بن ہلال عنزی نے کہا: ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ثابت (البنانی) کو اپنا سفارشی بنایا (ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی۔) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لیے (اندر آنے کی) اجازت لی۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا۔ ثابت نے ان سے کہا: اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو (یہ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ” جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے (کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں۔) وہ کہیں گے: میں اس کے لیے نہیں ہوں۔لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل (خالص دوست) ہیں۔ لوگ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس کے لیےنہیں۔ لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں (جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا) تو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضری ہو گی۔ وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آمد ہو گی، وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤ، تو (ان کی) آمد میرے پاس ہو گی۔ میں جواب دوں گا: اس (کام) کے لیے میں ہوں۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت عطا کی جائے گی، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ ہی یہ (حمد) میرے دل میں ڈالے گا، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت!، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا: جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! مجھے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لیں۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا۔ تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! ا پنا سر اٹھائیں، کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت!تو مجھ سے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، اس سے (بھی) کم، اس سے (اور بھی) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا۔“ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی۔ (معبدی بن ہلال عنزی نے) کہا: چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا: (کیا ہی اچھاہو) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں۔ وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نےکہا: جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا۔ ہم نے کہا: جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) کے پاس سے آرہے ہیں۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: لائیں سنائیں۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا: آگے سنائیں۔ ہم نے کہا: انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا۔ انہوں (حسن بصری) نے کہا: ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے۔انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، معلوم نہیں، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم (اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر) بھروسا نہ کر لو۔ ہم نےعرض کی: آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا (اور کسی وجہ سے) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کےبارے میں (بھی) اجازت دیجیے جنہوں نے (صرف) لا الہ الا اللہ کہا۔ اللہ فرمائے گا: یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم، میری کبریائی، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم! میں ان کو (بھی) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا۔“ معبد کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت سنی۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: بیس سال پہلے، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں۔
معبد بن ہلال عنزی بیان کرتے ہیں، کہ ہم لوگ انس بن مالک ؓ کے پاس گئے اور سفارش کے لیے ثابت کو ساتھ لیا۔ تو ہم ان کے پاس اس وقت پہنچے، جب وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمیں اجازت لے کر دی، تو ہم اندر ان کے پاس گئے۔ انھوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھا لیا، تو ثابت نے ان سے عرض کیا: اے ابو حمزہ! آپ کے بصری بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں، کہ آپ انھیں شفاعت کے بارے میں حدیث سنائیں! حضرت انس ؓ نے کہا: ہمیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ”جب قیامت کا دن ہوگا (گھبراہٹ کی بنا پر) لوگ ایک دوسرے میں گھسیں گے، تو (سوچ بچار کے بعد) پہلے آدمؑ کے پاس آئیں گے، اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے(کہ وہ میدانِ محشر کے مصائب سے نجات پائیں حساب کتاب شروع ہو) تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، لیکن تم ابراہیم ؑکے پاس جاؤ! کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے، تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا حق نہیں ہے۔ لیکن تم موسیٰؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہے۔ تو موسیٰؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! تو میرے پاس آیا جائے گا۔ تو میں جواب دوں گا: یہ میرا منصب ہے (میں اس کا اہل ہوں) میں چلوں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا، تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ تو میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں گا اور اس کی ایسی خوبیوں سے تعریف کروں گا جن کے بیان کی اب مجھ میں قدرت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مجھے الہام کرے گا، پھر میں اس کےحضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمدؐ! اپنا سر اٹھاؤ، کہو! تیری بات سنی جائے گی۔ مانگو! دیے جاؤ گے، سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں عرض کروں گا میرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: جاؤ! جس کے دل میں گندم یا جَو کے دانے کے برابر ایمان ہے، تم اسے نکال کر لاؤ۔ میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا، پھر اپنے رب کی طرف لوٹوں گا اور ان ہی تعریفات و خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ! کہو! تیری بات سنی جائے گی، مانگو! دیے جاو گے۔ سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: جائیے! جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا۔ پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آؤں گا، تو ان ہی خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! تیری بات سنی جائے گی، مانگیے! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: چلیے جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، بہت ہی کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا، اور یہ کام کروں گا۔“ یہ حضرت انس ؓ کی روایت ہے، جو انھوں نے ہمیں سنائی، تو ہم ان کے ہاں سے نکل آئے۔ جب ہم صحراء میں آئے، تو ہم نے کہا اے کاش! ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انھیں سلام کرتے جائیں۔ اور وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر چھپے ہوئے تھے۔ ہم ان کے پاس پہنچے، انھیں سلام عرض کیا، اور ہم نے عرض کیا: اے ابو سعید! (حسن بصری کی کنیت ہے) ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس ؓ کی کنیت ہے) کے پاس سے آ رہے ہیں، انھوں نے ہمیں شفاعت کے بارے میں جو حدیث سنائی ہے، اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی۔ حسن بصری نے کہا: سنائیے! ہم نے اسے حدیث سنائی، تو اس نے کہا: آگے بیان کیجیے! ہم نے کہا: اس سے زیادہ انھوں نے ہمیں نہیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: انھوں نے یہ حدیث ہمیں بیس برس پہلے سنائی تھی، جب کہ وہ اس وقت بھر پور جوان تھے۔ (ان کے قویٰ مضبوط تھے) انھوں نے کچھ چھوڑ دیا ہے۔ میں نہیں جانتا استاد صاحب بھول گئے ہیں، یا انھوں نے تمھیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا، کہ کہیں تم اس پر بھروسہ نہ کر لو۔ (اور نیک اعمال کرنا ترک کر دو) ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں سنا دیں! تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلد باز پیدا ہوا ہے۔ میں نے تمھارے سامنے اس کا تذکرہ اس لیے کیا ہے، کہ میں تمھیں سنانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر میں اپنے ربِ عز و جل کی خدمت میں چوتھی بار حاضر ہوں گا، ان ہی تعریفات سے اس کی تعریف کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو! تمھاری بات سنی جائے گی، مانگو! تمھیں ملے گا، سفارش کرو! آپ کی سفارش قبول ہوگی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کے بارے میں اجازت دیجیے، جنہوں نے صرف "لا إله إلا الله" کہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ آپ کا مقام نہیں ہے، یا آپ اس کے حق دار نہیں، لیکن میری عزت، کبریائی، میری عظمت اور میری قوت و جبروت کی قسم! میں ان کو نکال کر رہوں گا، جنھوں نے "لا إله إلا الله" کہا ہے۔“ راوی کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے ہمیں بتایا، کہ اس نے حضرت انس بن مالک ؓ سے یہ روایت سنی ہے، میرا خیال ہے، اس نے کہا، بیس سال پہلے جب کہ ان کے قویٰ مجتمع تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 193
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: كلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء، وغيرهم برقم (7510) انظر ((التحفة)) برقم (523 و 1599)»
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: ایک دن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی کیونکہ آپ آپ کو مرغوب تھی، آپ نے اپنےدندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا: ” میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلون اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور (اللہ کی) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی) ہو گی۔ سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جوان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور۔چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: آدم رضی اللہ عنہ کے پاس چلو تو وہ آدم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ سب انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ آدم رضی اللہ عنہ جواب دیں گے: میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اسے سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت (کےقریب جانے) سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ نوح رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ (اہل) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے: آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو) میری اپنی جان (پر بنی) ہے۔ مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، چنانچہ لوگ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل (صرف اس کے دوست) ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو ابراہیم رضی اللہ عنہ ان سے کہیں گے: میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا اور اپنے (تین) جھوٹ یاد کریں گے، (اور کہیں) مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے۔ کسی اورکے پاس جاؤ، موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں حاضر ہوں گے اورعرض کریں گے: اے موسیٰ!آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ موسیٰ رضی اللہ عنہ ان سے کہیں گے: میرا ب آج اس قدر غصے میں ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان (کا کیا ہو گا) میری جان (کیسے بچے گی؟) عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پا س جاؤ۔ لوگ عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم رضی اللہ عنہ کی طرف القاء کیا اور اس کی روح ہیں، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیں گے: میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس ےئین گآ اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کر دیے، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں، آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے، پھر (اللہ) فرمائےگا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے، آپ کو ملے گا، سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اےمیرے رب! میری امت! میری امت! توکہا جائے گا: اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنامکہ اور (شہر بجر) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دستی مرغوب تھی۔ آپ نے اس سے دانتوں سے ایک دفعہ گوشت کاٹا اور فرمایا: ”قیامت کے دن میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا، اور کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہوگا؟ اللہ عز و جل قیامت کے دن تمام پہلوں اور پچھلوں کو ایک کھلے ہموارمیدان میں جمع کرے گا۔ منادی کی آواز سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نظر سب پر پڑے گی۔ آفتاب قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور مصیبت پہنچے گی جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی۔ جس کو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو، تم کس حالت میں ہو؟ تمھیں کس قدر پریشانی اٹھانی پڑ رہی ہے؟ کیا تم کسی کو تلاش نہیں کرو گے؟ جو تمھارے رب کے حضور تمھاری سفارش کرے؟ تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے آدم ؑ کے پاس چلو۔ پھر وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے آدم! آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ مبارک سے بنایا ہے، اور آپ میں اپنی خصوصی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا، تو وہ آپ کے حضور جھک گئے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں، ہم کس قدر پریشان ہیں؟ آپ دیکھ نہیں رہے ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو آدمؑ جواب دیں گے: یقیناً میرا رب آج اس قدر ناراض ہے، کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر ناراض نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے مجھے درخت سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی۔ آج مجھے تو اپنی ہی فکر ہے، تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، نوح ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوحؑ! آپ اہلِ زمیں کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کا نام دیا ہے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں کیا! آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہم کس قدر پریشانی میں ہیں؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو وہ انھیں جواب دیں گے: آج میرا رب اس قدر غصے میں ہے کہ اتنا کبھی اس سے پہلےغصہ میں نہیں آیا، نہ ہی اس کے بعد کبھی اس قدر غصے میں آئے گا۔ صورتِ حال یہ ہے، کہ مجھے ایک دعا کرنے کا حق حاصل تھا وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف کر لی، آج تو مجھے اپنی فکر دامن گیر ہے۔ ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہلِ زمین میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت دیکھ نہیں رہے ہیں؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں وہ آپ کو نظر نہیں آ رہی؟ تو ابراہیم ؑ انھیں کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غضب ناک ہے کہ اس قدر اس سے پہلے غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا، اور اپنے توریوں کا تذکرہ کریں گے، مجھے تو اپنی ہی فکر دامن گیر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغامات اور ہم کلامی کی لوگوں پر فضیلت بخشی ہے۔ ہماری خاطر اللہ کے حضور سفارش کیجیے۔ کیا آپ ہماری بے بسی کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں، آپ اس کا ملاحظہ نہیں کر رہے؟ تو موسیٰؑ ؑ ان کو کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے اس قدر غضبناک نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہوگا، اور میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کی مجھے اجازت نہ تھی۔ مجھے تو اپنی ہی فکر لاحق ہے، عیسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ! لوگ عیسیٰ ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں گفتگو کی، آپ اللہ کا کلمہ ہیں، جس کا اس نے مریمؑ کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے، ہم کس قدر مصائب میں مبتلا ہیں؟ تو عیسیٰؑ انھیں جواب دیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں نہیں ہوا، نہ اس کے بعد اس قدر غصے میں ہو گا۔ (وہ) اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، مجھے اپنی ہی فکر ہے،میرے سوا کسی کے پاس جاؤ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! تو لوگ میرے پاس آکر کہیں گے: اے محمدؐ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ کیا آپ ہماری حالت نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہم کس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں؟ تو میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے محامد اور بہترین ثناء کا اظہار فرمائے گا، اور میرے دل میں ڈالے گا، مجھ سے پہلے کسی کو ان سے آگاہ نہیں کیا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا! مانگ! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! تیری سفارش قبول ہوگی۔ تو میں سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! (یعنی میری امت کو بخش دے) تو کہا جائے گا: اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کا حساب و کتا ب نہیں، جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جنت کے دروازوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 194
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((احاديث الانبياء)) باب يزفون النسلان فى المشي ببرعة (3361) وفي، باب: قول الله عز وجل: ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ ﴾ برقم (3340) وفي التفسير، باب: ﴿ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴾ برقم (4712) والترمذى في ((جامعه)) في الزهد، باب: ما جاء في الشافعة وقال: هذا حديث حسن صحيح، برقم (2434) وفي الاطعمة، باب: ما جاء فى اى اللحم كان احب الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (1837) باختصار - وابن ماجه في ((سننه)) في الاطعمة، باب: اطايب اللحم - مختصراً برقم (3307) انظر ((التحفة)) برقم (14927)»
ایک دوسرے سند سے) عمارہ بن قعقاع نے ابو زرعہ سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا، آپ نے دستی اٹھائی، آپ کو بکری (کے گوشت) میں سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا، آپ نےاس میں سے ایک بار اپنے داندان مبارک سے تناول کیا اور فرمایا: ”میں قیامت کےدن تمام لوگوں کاسردار ہوں گا۔“ پھر دوبارہ تناول کیا اور فرمایا: ”میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔“ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کے ساتھی (اس کے بارےمیں) آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا: ” تم پوچھتے کیوں نہیں کہ یہ کیسے ہو گا؟ انہوں نے پوچھا: یہ کیسے ہو گا؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”لوگ رب العالمین کے سامنےکھڑے ہو ں گے.....“(عمارہ نے بھی) ابوزرعہ کے حوالے سے ابو حیان کی بیان کردہ حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم رضی اللہ عنہ کے واقعے میں یہ اضافہ کیا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ابراہیم رضی اللہ عنہ نےستارے کے بارے میں اپنا قول: ”یہ میرا رب ہے“ اور ان کے معبودوں کے بارے میں یہ کہنا: ” بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے“ اور یہ کہنا: ”میں بیمار ہوں“ یاد کیا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! چوکھٹ کےدونوں بازؤں تک جنت کے کواڑوں میں سے (ہر) دو کواڑوں کے درمیان: اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان، یا (فرمایا) ہجر اور مکہ کےدرمیان ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ثرید اور گوشت کا پیالہ رکھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستی کو اٹھا لیا اور آپ کو بکری کے گوشت سے سب سے زیادہ یہی حصہ پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک دفعہ دانتوں سے نوچا اور فرمایا: ”میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔“ پھر دوبارہ گوشت نوچا اور فرمایا: ”میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔“ جب آپ نے دیکھا، آپ کے ساتھی اس کا سبب نہیں پوچھ رہے تو آپ نے فرمایا: ”تم کیوں نہیں پوچھتے یہ کیوں ہو گا؟“ انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا سبب کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“ عمارہ نے بھی حدیث مذکورہ بالا سند سے ابو حیان نے ابو زرعہ کی حدیث کی طرح بیان کی اور ابراہیم ؑ کے واقعہ میں یہ اضافہ کیا: ”کہ ابراہیم ؑ نے کہا: میں نے کواکب (ستاروں) کے بارے میں کہا: ﴿هَـٰذَا رَبِّي﴾ ”یہ میرا رب ہے“ اور ان کے معبودوں کے بارے میں کہا: ”بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے“ اور کہا: ”میں بیمار ہوں۔“ اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اس کی قسم! جنت کے دروازوں کے دونوں پٹوں کا فاصلہ چوکھٹ تک اتنا ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان، یا ہجر اور مکہ کے درمیان کا فاصلہ۔“ مجھے یاد نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کس شہر کا نام لیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 194
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14914)»
محمد بن فضیل نے کہا: ہمیں ابو مالک اشجعی نے حدیث سنائی، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز ابو مالک نے ربعی بن حراش سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہاکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا تو مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے والد بزرگ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے۔ وہ جواب دیں گے: کیا جنت سے تمہیں نکالنے کا سبب تمہارے باپ آدم کی خطاکے علاوہ کوئی اور چیز بنی تھی! میں اس کام کا اہل نہیں ہوں۔ میرے بیٹے، اللہ کے خلیل ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا: ”ابراہیم رضی اللہ عنہ کہیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں، میں خلیل تھا (مگر اولین شفاعت کے اس منصب سے) پیچھے پیچھے۔ تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کا رخ کرو، جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے۔ وہ جواب دیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ عیسیٰ رضی اللہ عنہ فرمائیں گے، میں اس کام (کو کرنے) والا نہیں ہوں۔ تو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے۔ آپ اللہ کے سامنے قیام فرمائیں گے اور آپ کو (شفاعت کی) اجازت دی جائے گی۔ امانت اور قرابت داری کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کی دونوں جانب دائیں اوربائیں کھڑی ہو جائیں گی۔ تم میں سے اولین شخص بجلی کی طرح گزر جائے گا۔“ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بجلی گزرنے کی طرح ”کیا ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا، کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح (تیزی سے) پھر پرندہ گزرنے اورآدمی کے دوڑنے کی طرح، ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے اور تمہارا نبی پل صراط پر کھڑا ہوا کہہ رہا ہو گا: اے میرے رب! بچا بچا (میری امت کے ہر گزرنے والے کو سلامتی سے گزار دے۔) حتی کہ بندوں کے اعمال ان کو لے کر گزر نہ سکیں گے یہاں تک کہ ایسا آدمی آئے گاجس میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے سے زیادہ کی استطاعت نہ ہوگی۔ آپ نے فرمایا: (پل) صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے معلق ہو ں گے، وہ اس بات پر مامور ہوں گےکہ جن لوگوں کے بارے میں حکم ہو ان کو پکڑ لیں، اس طرح بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض آگ میں دھکیل دیے جائیں گے۔“ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال (کی مسافت) کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا، تو مومن کھڑے ہوں گے حتیٰ کہ جنت ان کے قریب کردی جائے گی اور وہ آدمؑ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ہمارے ابا جان! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے! تو وہ جواب دیں گے: جنت سے تمھارے نکالنے کا سبب تمھارے باپ آدم کی خطا ہی نہیں ہے، یہ کام کرنے والا میں نہیں ہوں۔ میرے بیٹے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم ؑبھی فرمائیں گے: یہ کام کرنے والا میں نہیں ہوں، میں تو خلیل پیچھے پیچھے تھا، موسیٰؑ کا رخ کرو! جن سے اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً گفتگو فرمائی۔ تو لوگ موسیٰؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی روح اور اس کے کلمہ عیسیٰؑ کے پاس جاؤ! تو عیسیٰؑ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، تو لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوں گے اور آپ کو (سفارش کی) اجازت مل جائے گی۔ امانت اور رشتہ داری کو بھیج دیا جائے گا۔ وہ پُل کے دائیں اور بائیں کھڑے ہو جائیں گے۔ تم میں سے پہلا شخص بجلی کی تیزی سے گزر جائے گا۔“ تو میں نے پوچھا: آپ پر میرے ماں باپ قربان! بجلی کی تیزی سے گزر نے کی طرح کون سی شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح پلک جھپکنے کی طرح گزرتی اور لوٹتی ہے۔ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح (تیزی سے)، پھر جس طرح پرندہ گزرتا ہے، اور آدمی دوڑتے ہیں۔ ان کے اعمال ان کو دوڑائیں گے (اپنے اپنے عملوں کے موافق تیزی سے گزریں گے) اور تمھارا نبی پُلِ صراط پر کھڑا ہو کر کہہ رہا ہو گا: اے میرے رب! بچا! بچا! حتیٰ کہ بندوں کے اعمال عاجز آجائیں گے، یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا، وہ گھسٹ کر ہی چل سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پُل صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آنکڑے لٹک رہے ہوں گے، جن کے بارے میں حکم ہوگا: ان کو پکڑیں گے تو بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض کو دھکے سے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔“ اور اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں ابوہریرہ کی جان ہے، جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 195
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3311 و 13400)»