ابو کامل فضیل بن حسین جحدری اور محمد بن عبید غبری نے کہا: (الفاظ ابو کامل کے ہیں) ہمیں ابو عوانہ نے قتادہ سےحدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور وہ اس بات پر فکر مند ہوں گے (کہ اس دن کی سختیوں سے کیسے نجات پائی جائے؟) (ابن عبید نے کہا: ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی) او ر وہ کہیں گے: اگر ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش لائیں تاکہ وہ ہمیں اس جگہ (کی سختیوں) سے راحت عطا کر دے۔ آپ نے فرمایا: چنانچہ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اورکہیں گے: آپ آدم ہیں، تمام مخلوق کے والد، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں کہ وہ ہمیں اس (اذیت ناک) جگہ سے راحت دے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس مقام پر نہیں، پھر وہ اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس کی وجہ سے اپنےرب سے شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (لوگوں کی طرف) مبعوث فرمایا، آپ نے فرمایا: تو اس پر لوگ نوح رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے۔ وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں اور وہ اپنی غلطی کو، جس کا ارتکاب ان سے ہو گیا تھا، یادکرکے اس پر اپنے رب کی شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل (خالص دوست) بنایا ہے۔ وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی غلطی کو یادکریں گےجو ان سے سرزد ہو گئی تھی اور اس پر اپنے رب سے شرمندہ ہوں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نےکلام کیا اور انہیں تورات عنایت کی۔ لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں اور اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس پر اپنے رب سے شرمندگی محسوس کریں گے (او رکہیں گے:) لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس آئیں گے۔ وہ (بھی یہ) کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ ایسے برگزیدہ عبد (بندت) ہیں جس کے اگلے پچھلے گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کیے جا چکے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” پھر وہ میرے پاس آئیں گے، میں اپنے رب (کے پاس حاضری) کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی، اسے دیکھتے ہی میں سجدے میں گر جاؤں گا، تو جب تک اللہ چاہے گا مجھے اس حالت (سجدہ) میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کودیاجائے گا، سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب تعالیٰ کی ایسی حمد وستائش بیان کروں گا جو میرا رب عز وجل خود مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا۔ وہ میرے لیے حد مقرر کر دے گا، میں (اس کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر میں واپس آکر سجدے میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کو ملے گا، سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جومیرا رب مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا تووہ میرے لیے پھر ایک حد مقرر فرما دےگا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔“ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا: مجھے یاد نہیں، آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا) پھر میں کہوں گا: ”اےمیرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کا (دوزخ میں) ہمیشہ رہنا (اللہ کی طرف سے) لازمی ہو گیا ہے۔“ ابن عبید نےاپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: یعنی جس کا ہمیشہ رہنا لازمی ہو گیا۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا، اور وہ اس کے لیے فکر مند ہوں گے۔“ (کہ اس پریشانی سے کیسے نجات پائی جائے) ابنِ عبید نے کہا: ”اس غرض کے لیے (فکر) ان کے دل میں ڈالا جائے گا، تو وہ کہیں گے: اے کاش!ہم اپنے رب کے حضور کسی سفارشی کو لائیں؛ تاکہ وہ ہمیں اس جگہ سے آرام دلوائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدم ؑ کےپاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدمؑ ہیں! تمام مخلوق کے باپ، اللہ تعالی نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور تیرے اندر اپنی روح ڈالی (یعنی اپنی پیدا کردہ روح)، اور فرشتوں کو حکم دیا، انھوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں، کہ وہ ہمیں اس جگہ سے (اس جگہ کی تکلیف سے) آرام پہنچائے۔ تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا منصب نہیں (میں اس کے اہل نہیں)، تو وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا (یا اس کو بیان کر کے) اس کی بناء پر اپنے رب سے شرمائیں گے، لیکن تم نوح ؑ کے پاس جاؤ! وہ پہلا رسول ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو لوگ نوح ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں، اور وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا، اس کو یاد کر کے اپنے رب سےشرمائیں گے، اور (کہیں گے) تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! جسے اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے۔ تو وہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی خطا کو یاد کریں گے جو ان سے ہوئی تھی، اور اس کی وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! جن کو اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے کا شرف بخشا، اور انھیں تورات عنایت کی۔ تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، تو وہ بھی کہیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، اور اپنی خطا جو ان سے ہوئی تھی یاد کر کے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور اس کے کلمہ کے پاس جاؤ! تو لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ بھی یہی کہیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! جو ایسا بندہ ہے، جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کیے جا چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ میرے پاس آئیں گے، تو میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا، (تاکہ میں سفارش کر سکوں) تو مجھے اجازت دی جائے گی، تو جب میں اسے (اللہ تعالیٰ کو) دیکھوں گا، سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو جب تک وہ چاہے گا مجھے اس حالت میں چھوڑے گا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے! دیے جاؤ گے، سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھا لوں گا، اپنے رب کی ایسی حمد بیان کروں گا، جو میرا رب (اس وقت) سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا، میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں (اسی حد کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر واپس آکر میں سجدہ ریز ہوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اس حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے اے محمد! کہیے! تمھاری بات سنی جائے گی۔ مانگیے! دیے جاؤ گے۔ سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا، جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا، تو وہ میرے لیے ایک حد مقرر فر دے گا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔“ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی دفعہ فرمایا: ”تو میں کہوں گا: اے میرے رب! آگ میں صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جنھیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کے لیے دوزخ میں ہمیشگی ثابت ہے۔“ ابنِ عبید نے اپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: ”جس کا ہمیشہ رہنا ضروری ہے۔“