عن عبد الله بن بحينة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم صلى بهم الظهر فقام في الركعتين الأوليين ولم يجلس فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كبر وهو جالس، وسجد سجدتين قبل أن يسلم ثم سلم.أخرجه السبعة وهذا اللفظ للبخاري. وفي رواية لمسلم: يكبر في كل سجدة وهو جالس ويسجد، ويسجد الناس معه مكان ما نسي من الجلوس.
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز ظہر پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے تشہد میں نہ بیٹھے اور سیدھے کھڑے ہو گئے اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگ سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی «الله اكبر» کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔ اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے کہ بیٹھے ہوئے ہر سجدہ کے لیے «الله اكبر» کہتے تھے اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ سہو کیا۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنا بھول گئے تھے، اس کی تلافی کے لیے دو سجدے کیے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
حدیث نمبر: 263
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: صلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم إحدى صلاتي العشي ركعتين ثم سلم ثم قام إلى خشبة في مقدم المسجد فوضع يده عليها وفي القوم أبو بكر وعمر فهابا أن يكلماه وخرج سرعان الناس فقالوا: قصرت الصلاة وفي القوم رجل يدعوه النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذا اليدين فقال: يا رسول الله أنسيت أم قصرت الصلاة؟ فقال: «لم أنس ولم تقصر» فقال: بلى، قد نسيت. فصلى ركعتين، ثم سلم ثم كبر ثم سجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع رأسه فكبر ثم وضع رأسه فكبر فسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع رأسه وكبر. متفق عليه واللفظ للبخاري. وفي رواية لمسلم: صلاة العصرولأبي داود فقال: «أصدق ذو اليدين؟» فأومأوا: أي نعم. وهي في الصحيحين لكن بلفظ: فقالوا. وفي رواية له: ولم يسجد حتى يقنه الله تعالى ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد از دوپہر کی دو نمازوں (ظہر و عصر) میں سے ایک میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور مسجد کے سامنے رکھی ہوئی لکڑی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور اپنے ہاتھ اس پر رکھ لئے۔ نمازیوں میں سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کرنے سے ذرا خوفزدہ تھے۔ جلد باز لوگ مسجد سے نکل گئے تو لوگوں نے آپس میں سرگوشی کے انداز میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ ایک آدمی تھا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے) ذوالیدین کہہ کر بلاتے تھے، (اس) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ (آج) بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی کی گئی ہے۔ “ اس شخص نے پھر عرض کیا ہاں آپ ضرور بھول گئے ہیں۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں (جو چھوٹ گئی تھیں) پڑھیں اور سلام پھیرا پھر «الله اكبر» کہہ کر معمول کے سجدوں کی طرح سجدہ کیا یا اس سے ذرا لمبا پھر سجدہ سے «الله اكبر» کہہ کر سر اوپر اٹھایا پھر «الله اكبر» کہہ کر (زمین پر) رکھا اور معمول کے سجدہ کی طرح یا ذرا اس سے طویل سجدہ کیا اور پھر «الله اكبر» کہہ کر اپنا سر اٹھایا۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی اور ابوداؤد میں مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ” کیا ذوالیدین نے ٹھیک کہا ہے؟ “ تو لوگوں نے سر ہلا کر اشاروں سے کہا ہاں! یہ اضافہ صحیحین میں بھی ہے لیکن ان میں «فقالوا» کے لفظ کے ساتھ مروی ہے (یعنی زبان سے انہوں نے کہا) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تک اللہ کی جانب سے یقین نہ ہوا اس وقت سجدہ سہو نہیں کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 263]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره، حديث:482، والسهو، باب يكبر في سجدتي السهو، حديث:1229، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:573، وأبوداود، الصلاة، حديث:1008، وهو حديث صحيح، وحديث:"ولم يسجد حتي يقَّنه الله تعاليٰ ذلك" أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1012 وسنده ضعيف، فيه محمد بن كثير الصنعاني وهو ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة سوء حفظه واختلط أيضًا.»
حدیث نمبر: 264
وعن عمران بن حصين رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم رواه أبو داود والترمذي وحسنه والحاكم وصححه.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو گیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے) تو (پہلے) دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا اور پھر سلام پھیرا۔ اسے ابوداؤد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 264]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:571.»
حدیث نمبر: 265
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا شك أحدكم في صلاته فلم يدر كم صلى أثلاثا أم أربعا؟ فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان» . رواه مسلم.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے کسی کو جب نماز میں یہ شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تین یا چار؟ تو ایسی صورت میں شک کو نظرانداز کر کے جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنا رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے۔ پس اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے (چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو کر) اس کی نماز کو جفت کر دیں گے۔ (چھ بنا دیں گے) اور اگر اس نے پوری نماز پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کے لئے باعث ذلت و رسوائی ہوں گے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 265]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ماجاء في التشهد في سجدتي السهو، حديث:1039، والترمذي، الصلاة، حديث:395، والحاكم:1 /323، وأعل بما لا يقدح، وألله اعلم.»
حدیث نمبر: 266
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم. فلما سلم قيل له: يا رسول الله أحدث في الصلاة شيء؟ قال: «وما ذاك؟» قالوا: صليت كذا وكذا قال: فثنى رجليه واستقبل القبلة فسجد سجدتين ثم سلم ثم أقبل على الناس بوجهه فقال: «إنه لو حدث في الصلاة شيء أنبأتكم به ولكن إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسجد سجدتين» . متفق عليه. وفي رواية للبخاري:«فليتم ثم يسلم ثم يسجد» . ولمسلم: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم سجد سجدتي السهو بعد السلام والكلام. ولأحمد وأبي داود والنسائي من حديث عبد الله بن جعفر مرفوعا: «من شك في صلاته فليسجد سجدتين بعد ما يسلم» . وصححه ابن خزيمة.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز میں کوئی نئی چیز رونما ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا آپ نے تو اتنی اتنی نماز ادا فرمائی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دوہرے کئے (اور ان پر بیٹھ گئے) اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا ” اگر نماز میں کوئی نئی چیز پیدا ہوئی ہوتی تو میں خود تمہیں اس سے باخبر کرتا۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں، اسی طرح بھول جاتا ہوں جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد کرا دیا کرو اور تم میں سے جب کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو صحیح صورت حال تک پہنچنے کی کوشش کر لے پھر اپنی نماز اس بنیاد پر مکمل کر لے۔ پھر دو سجدے کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”(پہلے) نماز مکمل کرنی چاہیئے پھر سلام پھیرے اور پھر سجدہ کرے“ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو سلام و کلام کے بعد کئے ہیں۔ مسند احمد، ابوداؤد اور نسائی میں مروی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت میں ہے کہ جس شخص کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرنے چاہئیں۔ اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 266]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب التوجد نحو القبلة حيث كان، حديث:401 وغيره، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:572، وحديث عبدالله بن جعفر أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1033، والنسائي، السهو، حديث:1250، وأحمد:1 /205، 206، وسنده حسن، وابن خزيمة:2 /116، حديث:1033.»
حدیث نمبر: 267
وعن المغيرة بن شعبة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا شك أحدكم فقام في الركعتين فاستتم قائما فليمض ولا يعود وليسجد سجدتين فإن لم يستتم قائما فليجلس ولا سهو عليه» رواه أبو داود وابن ماجه والدارقطني واللفظ له بسند ضعيف.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ” تم میں سے جب کسی کو دو رکعتوں میں شک پیدا ہو جائے اور (کھڑا ہو جائے) بلکہ بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے تو اسے جاری رکھے اور واپس نہ لوٹے بعد میں اسے دو سجدے سہو کے کر لینے چاہئیں اور اگر بالکل سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو نہیں۔“ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ بھی دارقطنی کے ہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 267]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب من نسي أن يتشهد وهو جالس، حديث:1036، وابن ماجه إقامة الصلوات، حديث:1208، والدارقطني:1 /379، وللحديث شاهد بمتن آخر عند الطحاوي في معاني الآثار (1 /440)، وسنده حسن، وانظر نيل المقصود:1037 فهو يغني عنه.»
حدیث نمبر: 268
وعن عمر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «ليس على من خلف الإمام سهو فإن سها الإمام فعليه وعلى من خلفه» . رواه الترمذي والبيهقي بسند ضعيف.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کسی مقتدی پر سجدہ سہو نہیں ہے۔ ہاں اگر امام بھول جائے تو پھر امام اور مقتدی دونوں پر سجدہ سہو ہے۔“ اسے بزار اور بیہقی نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 268]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:2 /352، والبزار: لم أجده* فيه خارجة بن مصعب متهم متروك، وأبوالحسين المديني مجهول.»
حدیث نمبر: 269
وعن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: «لكل سهو سجدتان بعدما يسلم» . رواه أبو داود وابن ماجه بسند ضعيف.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر سہو کے لیے دو سجدے ہیں، جو سلام پھیرنے کے بعد ہیں۔“ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ دونوں نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 269]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب من نسي أن يتشهد وهو جالس، حديث:1038، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1219* إسماعيل بن عياش رواه عن أهل بلده وصرح بالسماع فلا وجه لتضعيف السند.»
حدیث نمبر: 270
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سجدنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في (إذا السماء انشقت) و (اقرأ باسم ربك). رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے سورۃ «إذا السماء انشقت»(سورۃ الانشقاق) اور سورۃ «اقرأ باسم ربك»(سورۃ العلق) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ تلاوت کیا ہے۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 270]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب سجود التلاوة، حديث:578.»
حدیث نمبر: 271
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: (ص) ليست من عزائم السجود وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يسجد فيها. رواه البخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ «ص» کا سجدہ ان میں سے نہیں ہے جن کا ذکر ضروری ہے، البتہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 271]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجدة ص، حديث:1069.»
حدیث نمبر: 272
وعنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم سجد بالنجم. رواه البخاري
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «النجم» میں سجدہ تلاوت کیا۔ (بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 272]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجود المسلمين مع المشركين، حديث:1071.»
حدیث نمبر: 273
وعن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: قرأت على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم النجم فلم يسجد فيها.متفق عليه.
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو سورۃ «النجم» کی قرآت کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 273]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب من قرأ السجدة ولم يسجد، حديث:1072، ومسلم، المساجد، باب سجود التلاوة، حديث:577.»
حدیث نمبر: 274
وعن خالد بن معدان رضي الله عنه قال: فضلت سورة الحج بسجدتين. رواه أبو داود في المراسيل. ورواه أحمد والترمذي موصولا من حديث عقبة بن عامر وزاد: فمن لم يسجدهما فلا يقرأهما. وسنده ضعيف.
سیدنا خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورۃ «الحج» کو دو سجدہ تلاوت کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے۔ اس کو ابوداؤد نے مراسیل میں ذکر کیا ہے۔ اور احمد اور ترمذی نے عتبہ بن عامر کی حدیث سے اسے موصول قرار دیا ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے جس نے اس سورۃ کے دونوں سجدے نہ کیے وہ اسے نہ پڑھے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 274]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:70 وسنده ضعيف لإرساله، وأحمد: 4 /151، والترمذي، الجمعة، حديث:578 من حديث عقبة بن عامر، وسنده حسن لذاته.»
حدیث نمبر: 275
وعن عمر رضي الله عنه قال: يا أيها الناس إنا نمر بالسجود فمن سجد فقد أصاب ومن لم يسجد فلا إثم عليه. رواه البخاري وفيه: إن الله تعالى لم يفرض السجود إلا أن نشاء. وهو في الموطأ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا” لوگو! ہم آیات سجدہ سے گزرتے ہیں۔ جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں۔“(بخاری) اور اسی میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا، مگر قاری اگر چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ ذکر موطا میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 275]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب من رأي أن الله لم يوجب السجود، حديث:1077، ومالك في الموطأ:1 /206.»
حدیث نمبر: 276
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ علينا القران فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا معه. رواه أبو داود بسند فيه لين.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ جب آیت سجدہ پر سے گزرتے تو اللہ اکبر کہ کر سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی سجدہ کرتے۔ ابوداؤد نے اسے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 276]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الرجل يسمع السجده وهو راكب، حديث:1413.* عبدالله بن عمر العمري ضعيف لكنه حسن الحديث عن نافع.»
حدیث نمبر: 277
وعن أبي بكرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا جاءه خبر يسره خر ساجدا لله. رواه الخمسة إلا النسائي.
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشخبری ملتی تو اللہ کے حضور سجدے میں گر پڑتے۔ نسائی کے علاوہ پانچوں نے اسے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 277]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في سجود الشكر، حديث:2774، والترمذي، السير، حديث:1578، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1394، وأحمد:5 /45.»
حدیث نمبر: 278
وعن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه قال: سجد النبي صلى الله عليه وآله وسلم فأطال السجود ثم رفع رأسه فقال: «إن جبريل أتاني فبشرني فسجدت لله شكرا» . رواه أحمد وصححه الحاكم.
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر فرمایا ”ابھی جبرائیل علیہ السلام ایک خوشخبری لے کر میرے پاس آئے تو وہ مژدہ سن کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ شکر ادا کیا۔“ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 278]
وعن البراء بن عازب رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعث عليا إلى اليمن فذكر الحديث قال: فكتب علي بإسلامهم فلما قرأ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الكتاب خر ساجدا شكرا لله تعالى على ذلك. رواه البيهقي. وأصله في البخاري.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا۔ راوی نے حدیث بیان کی جس میں اس نے کہا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل یمن کے اسلام میں داخل ہونے کی روداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ارسال فرمائی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مکتوب پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدہ ریز ہو گئے۔ بیہقی نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں موجود ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 279]