وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا شك أحدكم في صلاته فلم يدر كم صلى أثلاثا أم أربعا؟ فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان» . رواه مسلم.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے کسی کو جب نماز میں یہ شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تین یا چار؟ تو ایسی صورت میں شک کو نظرانداز کر کے جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنا رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے۔ پس اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے (چھٹی رکعت کے قائم مقام ہو کر) اس کی نماز کو جفت کر دیں گے۔ (چھ بنا دیں گے) اور اگر اس نے پوری نماز پڑھی ہے تو یہ دو سجدے شیطان کے لئے باعث ذلت و رسوائی ہوں گے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 265]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ماجاء في التشهد في سجدتي السهو، حديث:1039، والترمذي، الصلاة، حديث:395، والحاكم:1 /323، وأعل بما لا يقدح، وألله اعلم.»
إذا شك أحدكم في صلاته فلم يدر كم صلى أثلاثا أم أربعا ؟ فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 265
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ماجاء في التشهد في سجدتي السهو، حديث:1039، والترمذي، الصلاة، حديث:395، والحاكم:1 /323، وأعل بما لا يقدح، وألله اعلم.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب نمازی کو رکعات کی تعداد میں شک پڑ جائے تو اسے کم پر بنیاد رکھنی چاہیے۔ اس میں یقین کا امکان ہے۔ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز میں شک واقع ہونے کی صورت میں اسے تحری کرنی چاہیے‘ یعنی یاد کرنے کی انتہائی کوشش کرے‘ اگر گمان غالب کسی طرف ہو جائے تو اس پر عمل کرے اور اگر تحری کے باوجود دونوں اطراف مساوی نظر آئیں تو پھر کم پر بنیاد رکھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 265
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1237
´سجدہ سہو کے سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں ان کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ کو سہو ہو گیا، تو آپ نے دو سجدے (سہو کے) کیے، پھر سلام پھیرا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1237]
1237۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں سہو کی صراحت نہیں کہ کون سا تھا؟ تشہد والا یا دو رکعتوں والا؟ پہلی صورت میں دو سجدے سلام سے پہلے اور دوسری صورت میں سلام کے بعد کیے جائیں گے۔ روایات میں صراحت ہے، مبہم روایت کو صریح روایات پر محمول کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1237
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1238
´سجدہ سہو کے سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں ان کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر آپ اپنے حجرے میں چلے گئے، تو آپ کی طرف اٹھ کر خرباق نامی ایک شخص گئے اور پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ تو آپ غصہ کی حالت میں اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے، اور پوچھا: ”کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ کھڑے ہوئے، اور (جو چھوٹ گئی تھی) اسے پڑھایا پھر سلام پھیرا، پھر اس رکعت کے (چھوٹ جانے کے سبب) دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1238]
1238۔ اردو حاشیہ: مصنف رحمہ اللہ کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اس روایت کے واقعہ کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت والا واقعہ ہی سمجھ رہے ہیں مگر دونوں کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے۔ پہلی روایات میں دو رکعت پر سلام کا ذکر ہے۔ اس روایت میں تین رکعات پر سلام منقول ہے۔ پہلی روایت کے مطابق آپ مسجد ہی میں رہے، گھر نہیں گئے۔ اس روایت کے مطابق آپ گھر چلے گئے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا۔ اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک یہ مختلف واقعات ہیں کیونکہ روایات کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1238
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1332
´سجدہ سہو کے بعد سلام پھیرنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا، تو خرباق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ نے تین ہی رکعت نماز پڑھی ہے، چنانچہ آپ نے انہیں وہ رکعت پڑھائی جو باقی رہ گئی تھی، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1332]
1332۔ اردو حاشیہ: ➊ سجود سہو کے بعد سلام اتفاقی مسئلہ ہے، البتہ تشہد میں اختلاف ہے۔ تشہد کی روایات ضعیف ہیں۔ عام روایات میں تشہد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ تشہد نہیں ہے۔ احناف لازمی سمجھتے ہیں۔ ➋ ”خرباق“ کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 1230 کا فائدہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1332
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1018
´سجدہ سہو کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر اندر چلے گئے۔ مسدد نے مسلمہ سے نقل کیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں چلے گئے تو ایک شخص جس کا نام خرباق تھا اور جس کے دونوں ہاتھ لمبے تھے اٹھ کر آپ کے پاس گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کھینچتے ہوئے غصے کی حالت میں باہر نکلے اور لوگوں سے پوچھا: ”کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟“، لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر سہو کے دونوں سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1018]
1018۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث میں دلیل ہے کہ سہو کے واقعات مختلف تھے۔ ➋ جب فوت شدہ رکعت یا رکعات پڑھنی پڑھانی ہوں گی تو اس کے لئے تکبیر تحریمہ بھی ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1018
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1039
´سجدہ سہو کر کے تشہد پڑھنے اور سلام پھیرنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ بھول گئے تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1039]
1039. اردو حاشیہ: اس میں سجدہ سہو کے سجدوں کے بعد تشہد پڑھنے اور پھر سلام پھیرنے کا ذکر ہے۔ اس حدیث کی رو سے اس کا بھی جواز ہے۔ تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1039
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1215
´دوسری یا تیسری رکعت میں بھول کر سلام پھیر دے تو اس کے حکم کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر میں تین ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر اٹھے اور حجرہ میں تشریف لے گئے، تو لمبے ہاتھوں والے خرباق (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور پکارا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں اپنا تہبند گھسیٹتے ہوئے نکلے، اور لوگوں سے پوچھا، تو اس کے بارے میں آپ کو خبر دی گئی، تو آپ نے چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1215]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) حدیث 1207 میں بیان ہوا ہے کہ وہ نماز ظہر کی تھی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب ھل یأخذ الإمام إذا شك بقول الناس، حدیث: 715)
(2) مذکورہ بالا روایات میں مذکور ہے۔ کہ رسول اللہﷺنے چار کے بجائے دو رکعتیں ادا کیں تھیں۔ تین نہیں۔ یہ روایات زیادہ صحیح ہیں تاہم اس معمولی اختلاف کے باجود اصل مسئلہ ثابت ہے کہ بھول کررکعتیں کم پڑھی جایئں تو معلوم ہونے پر باقی نماز پڑھ کرسجدہ سہو کیا جائےگا۔ پوری نماز دہرانے کی ضرورت نہیں چاہے امام اور مقتدیوں کے درمیان گفتگو بھی ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1215
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 395
´سجدہ سہو میں تشہد پڑھنے کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی آپ سے سہو ہو گیا، تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 395]
اردو حاشہ: نوٹ: (حدیث میں تشہد کا تذکرہ شاذ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 395
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1293
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعات پر سلام پھیردیا، پھر اپنے گھر جانے لگے تو آپﷺ کے پاس ایک آدمی آیا، جسے خرباق کہا جاتا تھا اور اس کے ہاتھ لمبے تھے، اس نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپﷺ کو کیا ہوا تو آپﷺ غصے کی حالت میں چادر کھینچتے ہوئے نکلے، حتیٰ کہ لوگوں کے پاس آ گئے۔ اور پوچھا: ”کیا یہ سچ کہہ رہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہاں۔ تو آپﷺ نے ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1293]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی اصلاح و درستگی کے بارے میں کی گئی گفتگو سے پہلی نماز باطل نہیں ہوتی، صرف رہ جانے والی نماز پڑھنی پڑتی ہے۔