اور عطاء بن ابی رباح نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دیں اور طواف (بیت اللہ اور صفا و مروہ) کریں پھر بال ترشوا کر احرام سے نکل جائیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: Q1791]
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ بھی کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کیا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے (بیت اللہ کا) طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی طواف کیا، پھر صفا اور مروہ آئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ والوں سے حفاظت کر رہے تھے کہ کہیں کوئی کافر تیر نہ چلا دے، میرے ایک ساتھی نے ابن ابی اوفی سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں اندر داخل ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1791]
کہا انہوں نے پھر پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کیا کچھ فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا ”خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں ایک موتی کے گھر کی بشارت ہو، جس میں نہ کسی قسم کا شور و غل ہو گا نہ کوئی تکلیف ہو گی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1792]
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے کہا کہ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو عمرہ کے لیے بیت اللہ کا طواف تو کرتا ہے لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا، کیا وہ (صرف بیت اللہ کے طواف کے بعد) اپنی بیوی سے ہمبستر ہو سکتا ہے؟ انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ) تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کیا، پھر مقام ابراہیم علیہ السلام کے قریب دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد صفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کی ”اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1793]
انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بھی اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جانا چاہئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1794]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر بن محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا، اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطحاء میں حاضر ہوا آپ وہاں (حج کے لیے جاتے ہوئے اترے ہوئے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارا حج ہی کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور احرام کس چیز کا باندھا ہے؟ میں نے کہا میں نے اسی کا احرام باندھا ہے، جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اچھا کیا، اب بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر لے پھر احرام کھول ڈال، چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، اس کے بعد میں نے حج کا احرام باندھا۔ میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) اسی کے مطابق لوگوں کو مسئلہ بتایا کرتا تھا، جب عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر عمل کرنا چاہے کہ اس میں ہمیں (حج اور عمرہ) پورا کرنے کا حکم ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا تھا جب تک ہدی کی قربانی نہیں ہو گئی تھی۔ لہٰذا ہدی ساتھ لانے والوں کے واسطے ایسا ہی کرنے کا حکم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1795]
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ نے ان سے بیان کیا، انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے سنا تھا، وہ جب بھی حجون پہاڑ سے ہو کر گزرتیں تو یہ کہتیں رحمتیں نازل ہوں اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہیں قیام کیا تھا، ان دنوں ہمارے (سامان) بہت ہلکے پھلکے تھے، سواریاں اور زاد راہ کی بھی کمی تھی، میں نے، میری بہن عائشہ رضی اللہ عنہا نے، زبیر اور فلاں فلاں رضی اللہ عنہم نے عمرہ کیا اور جب بیت اللہ کا طواف کر چکے تو (صفا اور مروہ کی سعی کے بعد) ہم حلال ہو گئے، حج کا احرام ہم نے شام کو باندھا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1796]