[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہرگز نہیں، بے شک انسان یقینا حد سے نکل جاتا ہے۔ [6] اس لیے وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ غنی ہوگیا ہے۔ [7] یقیناتیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ [8] کیا تونے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ [9] ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ [10] کیا تو نے دیکھا اگر وہ ہدایت پر ہو۔ [11] یا اس نے پرہیزگاری کا حکم دیا ہو۔ [12] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے [6] اس لئے کہ وه اپنے آپ کو بے پروا (یا تونگر) سمجھتا ہے [7] یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے [8] (بھلا) اسے بھی تو نے دیکھا جو بندے کو روکتا ہے [9] جبکہ وه بنده نماز ادا کرتا ہے [10] بھلا بتلا تو اگر وه ہدایت پر ہو [11] یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو [12]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے [6] جب کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے [7] کچھ شک نہیں کہ (اس کو) تمہارے پروردگار ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے [8] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے [9] (یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے [10] بھلا دیکھو تو اگر یہ راہِ راست پر ہو [11] یا پرہیز گاری کا حکم کرے (تو منع کرنا کیسا) [12]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 6، 7، 8، 9، 10، 11، 12،
طالب علم اور طالب دنیا ٭٭
فرماتا ہے کہ ” انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے ذرا فارغ البال ہوا کہ اس کے دل میں کبر و غرور، عجب و خود پسندی آئی اسے ڈرتے رہنا چاہیئے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ لایا کہاں سے، خرچ کہاں کیا؟ “
عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”دو لالچی ایسے ہیں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ایک طالبعلم اور دوسرا طالب دنیا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ علم کا طالب تو اللہ کی رضا مندی کے حاصل کرنے میں بڑھتا رہتا ہے اور دنیا کا لالچی سرکشی اور خودپسندی میں بڑھتا رہتا ہے“، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں دنیا داروں کا ذکر ہے پھر طالب علموں کی فضیلت کے بیان کی یہ آیت تلاوت کی «إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ»[35-فاطر:28] ۔ یہ حدیث مرفوعاً یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے بھی مروی ہے کہ دو لالچی ہیں جو شکم پر نہیں ہوتے طالب علم اور طالب دنیا ۔ [طبرانی کبیر:10388:صحیح]
اس کے بعد کی آیات ابوجہل ملعون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتا تھا۔ پس پہلے تو اسے بہترین طریقہ سمجھا گیا کہ جنھیں تو روکتا ہے یہی اگر سیدھی راہ پر ہوں انہی کی باتیں تقوے کی طرف بلاتی ہوں، پھر تو انہیں پر تشدد کرے اور خانہ اللہ سے روکے تو تیری بد قسمتی کی انتہا ہے یا نہیں؟ کیا یہ روکنے والا جو نہ صرف خود حق کی راہنمائی سے محروم ہے بلکہ راہ حق سے روکنے کے درپے ہے اتنا بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس کا کلام سن رہا ہے اور اس کے کلام اور کام پر اسے سزا دے گا۔
اس طرح سمجھا چکنے کے بعد اب اللہ ڈرا رہا ہے کہ اگر اس نے مخالفت، سرکشی اور ایذاء دہی نہ چھوڑی تو ہم بھی اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے جو اقوال میں جھوٹا اور افعال میں بدکار ہے یہ اپنے مدد گاروں، ہم نشینوں قرابت داروں اور کنبہ قبیلے والوں کو بلا لے۔ دیکھیں تو کون اس کی مدافعت کر سکتا ہے۔ ہم بھی اپنے عذاب کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں پھر ہر ایک کو کھل جائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟
صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو گردن سے دبوچوں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ ایسا کرے گا تو اللہ کے فرشتے پکڑ لیں گے ۔ [صحیح بخاری:4958]
10734
دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ ملعون آیا اور کہنے لگا کہ میں نے تجھے منع کر دیا پھر بھی تو باز نہیں آیا اگر اب میں نے تجھے کعبے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو سخت سزا دوں گا وغیرہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے جواب دیا اس کی بات کو ٹھکرا دیا اور اچھی طرح ڈانٹ دیا، اس پر وہ کہنے لگا کہ تو مجھے ڈانٹتا ہے اللہ کی قسم میری ایک آواز پر یہ ساری وادی آدمیوں سے بھر جائے گی اس پر یہ آیت اتری کہ اچھا تو اپنے حامیوں کو بلا ہم بھی اپنے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر وہ اپنے والوں کو پکارتا تو اسی وقت عذاب کے فرشتے اسے لپک لیتے۔ [مسند احمد:256/1:صحیح]
10735
مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں آپ کو بیت اللہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں گا تو اس کی گردن توڑ دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ ایسا کرتا تو اسی وقت لوگوں کے دیکھتے ہوئے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اسی طرح جبکہ یہودیوں سے قرآن نے کہا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو موت مانگو اگر وہ اسے قبول کر لیتے اور موت طلب کرتے تو سارے کے سارے مر جاتے اور جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر یہ مباہلہ کے لیے نکلتے تو لوٹ کر نہ اپنا مال پاتے، نہ اپنے بال بچوں کو پاتے۔“[مسند احمد:248/1:صحیح]
ابن جریر میں ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں آپ کو مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتا ہوا دیکھ لوں گا تو جان سے مار ڈالوں گا اس پر یہ سورت اتری۔ حضور علیہ السلام تشریف لے گئے ابوجہل موجود تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز ادا کی تو لوگوں نے اس بدبخت سے کہا کہ کیوں بیٹھا رہا؟ اس نے کہا: کیا بتاؤں کون میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر ذرا بھی ہلتا جلتا تو لوگوں کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے ہلاک کر ڈالتے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37688] ۔
ابن جریر کی اور روایت میں ہے کہ ابوجہل نے پوچھا کہ کیا محمد تمہارے سامنے سجدہ کرتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اگر میرے سامنے اس نے یہ کیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کے منہ کو مٹی میں ملا دوں گا ادھر اس نے یہ کہا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و بارک علیہ نے نماز شروع کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو یہ آگے بڑھا لیکن ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچاتا ہوا پچھلے پیروں نہایت بدحواسی سے پیچھے ہٹا۔ لوگوں نے کہا کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کی خندق ہے اور گھبراہٹ کی خوفناک چیزیں ہیں اور فرشتوں کے پر ہیں وغیرہ۔
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ ذرا قریب آ جاتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیتے“۔
پس یہ آیتیں «كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ»[96-العلق:6] سے آخر تک سورت تک نازل ہوئیں۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ کلام سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے یا نہیں؟ یہ حدیث مسند، مسلم، نسائی ابن ابی حاتم میں بھی ہے۔ [صحیح مسلم:2797]