[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔ [1] اس نے انسان کو ایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ [2] پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ [3] وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا۔ [4] اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا [1] جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا [2] تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے [3] جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا [4] جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا [1] جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا [2] پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے [3] جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا [4] اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5،
باب
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہو جاتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہیں عبادت میں گزارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں، شروع شروع میں وحی آئی، فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا «اقْرَأْ» یعنی پڑھئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔“ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا: پڑھو! میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں۔ اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی، پھر چھوڑ دیا اور «اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ»[96-العلق:1] سے «عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ»[96-العلق:5] تک پڑھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: ”مجھے کپڑا اڑھا دو“، چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: ”مجھے اپنی جان جانے کا خوف ہے۔“
10727
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی باتیں کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں، جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہو گئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھی بہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے۔
ورقہ نے پوچھا بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ رازداں فرشتہ ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا، کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آ گیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے۔
ادھر وحی بھی رک گئی اور اس کے رکنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت جبرائیل علیہ السلام آ جاتے اور فرما دیتے کہ ”اے محمد آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آ جاتے۔ [صحیح بخاری:4956]
10728
یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے۔ [صحیح بخاری:3] اس کی سند میں، اس کے متن میں، اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیئے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کر دیا ہے۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں، یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔
پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی، لفظی اور رسمی اور رسمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا معلوم کرا دیا۔ ایک اثر میں وارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو۔ [مستدرک حاکم:106/1:ضعیف جدا]
اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم کا بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔ [ابو نعیم15/10-14:لا اصل لہ فی المرفوع]