[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ۔ [1] وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔ [2] اور جب انھیں ماپ کر، یا انھیں تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ [3] کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ وہاٹھائے جانے والے ہیں۔ [4] ایک بہت بڑے دن کے لیے ۔ [5] جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے۔ [6] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی [1] کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں [2] اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں [3] کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں [4] اس عظیم دن کے لئے [5] جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے [6]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے [1] جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں [2] اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں [3] کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے [4] (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں [5] جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے [6]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6،
ناپ تول میں کمی کے نتائج ٭٭
نسائی اور ابن ماجہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا۔“[سنن ابن ماجہ:2223،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ”مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔“ آپ نے فرمایا ”وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ»[83-المطففين:1] ہے۔“
پس «تَّطْفِيفِ» سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ ” یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ “ ٹھیک یہ ہے کہ «کَالُوْا» اور «وَزَنُوْا» کو متعدی مانیں اور «ھُمْ» کو محلاً منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے۔ جو «كَالُوْا» اور «وَّزَنُوْا» کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔
قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے «وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا»[17-الإسراء:35] یعنی ” جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو۔ “
اور جگہ حکم ہے «اَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا»[6-الأنعام:152] ” ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ “
اور جگہ فرمایا «وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ»[55-الرحمن:9] یعنی ” تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ “
شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بد عادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ” لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا “۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا ۔ [صحیح بخاری:6531]
10389
مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عزوجل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے۔ [مسند احمد:31/2:صحیح]
اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا۔ [صحیح مسلم:2864]
اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے۔[مسند احمد:254/5:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ [مسند احمد:157/4:صحیح]
اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزار سال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی۔“[صحیح مسلم:987]
10390
ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائے گا۔“ بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اللہ ہی مددگار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:34290:ضعیف]
سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ [سنن ابوداود:766،قال الشيخ الألباني:حسن]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگامیں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ [ ابن جریر ]
ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ»، دس مرتبہ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ» کہتے، دس مرتبہ «سُبْحَانَ اﷲِ» کہتے، دس مرتبہ «اَسْتَغْفِرُ اﷲَ»، پھر کہتے دعا «اللَّهُمَّ اِغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي» اے اللہ مجھے بخش، مجھے ہدایت دے، مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔[سنن ابن ماجہ:1356،قال الشيخ الألباني:حسن]