[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہرگز نہیں، بے شک نافرمان لوگوں کا اعمال نامہ یقینا دائمی سخت قید کے دفتر میں ہے ۔ [7] اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہدائمی سخت قید کا دفتر کیا ہے؟ [8] ایک کتاب ہے، واضح لکھی ہوئی ۔ [9] اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے ۔ [10] جو جزا کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ [11] اور اسے کوئی نہیں جھٹلاتا مگر ہر حد سے نکل جانے والا، سخت گناہ گار۔ [12] جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ [13] ہرگز نہیں، بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر جو وہ کماتے تھے ۔ [14] ہرگز نہیں، بے شک وہ اس دن یقینا اپنے رب سے حجاب میں ہوں گے۔ [15] پھر بے شک وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں یقینا داخل ہونے والے ہیں۔ [16] پھر کہا جائے گا یہی ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ۔ [17] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً بدکاروں کا نامہٴ اعمال سِجِّينٌ میں ہے [7] تجھے کیا معلوم سِجِّينٌ کیا ہے؟ [8] (یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے [9] اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے [10] جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے [11] اسے صرف وہی جھٹلاتا ہےجو حد سے آگے نکل جانے واﻻ (اور) گناه گار ہوتا ہے [12] جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں [13] یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے [14] ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سےاوٹ میں رکھے جائیں گے [15] پھر یہ لوگ بالیقین جہنم میں جھونکے جائیں گے [16] پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے وه جسے تم جھٹلاتے رہے [17]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] سن رکھو کہ بدکارروں کے اعمال سجّین میں ہیں [7] اور تم کیا جانتے ہوں کہ سجّین کیا چیز ہے؟ [8] ایک دفتر ہے لکھا ہوا [9] اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے [10] (یعنی) جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں [11] اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے جو حد سے نکل جانے والا گنہگار ہے [12] جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں [13] دیکھو یہ جو (اعمال بد) کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے [14] بےشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے [15] پھر دوزخ میں جا داخل ہوں گے [16] پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے [17]۔ ........................................
مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا «سِجِّينٍ» ہے یہ لفظ «فِعِّیْلٌ» کے وزن پر «سِجْنٌ» سے ماخوذ ہے «سِجْنٌ» کہتے ہیں لغتاً تنگی کو «ضِّيق»، «فِسِّيقٌ»، «وَشِرِّيبٌ» «وَخِمِّيرٌ»، «وَسِكِّيرٌ» وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی «سِجِّينٌ» ہے۔
پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ ” تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے۔ “ مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بارے میں جناب باری ارشاد ہوتا ہے کہ ” اس کی کتاب «سجین» میں لکھ لو۔ “[سلسلة احادیث صحیحہ البانی:1676:صحیح] اور «سجین» ساتویں زمین کے نیچے ہے۔
کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے۔ ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ «فلق» جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور «سجین» کھلے منہ والا گڑھا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:36614:ضعیف]
10397
صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے۔
اور جگہ ہے «ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ»[95-التين:6،5] یعنی ” ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں۔ “
غرض «سجین» ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے «وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا»[25-الفرقان:13] ” جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے۔ “
«کِتَابٌ مَّرْقُوْمٌ» یہ «سجین» کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی، تو فرمایا ” ان کا انجام «سجین» ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے ان جھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے۔ “
«ویل» کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے «وَیْلٌ لِّفُـلَانٍ» ۔ مسند اور سنن کی حدیث میں ہے «ویل» ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے «ویل» ہے اسے «ویل» ہے۔ [سنن ابوداود:4990،قال الشيخ الألباني:حسن]
پھر ان جھٹلانے والے بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا ” یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں۔ “
پھر فرمایا کہ ” قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ۔ “
10398
یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا «وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ»[16-النحل:24] ” جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں۔ “
اور جگہ ہے آیت «وَقَالُوا أَسَاطِير الْأَوَّلِينَ اِكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَة وَأَصِيلًا»[25-الفرقان:5] یعنی ” یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں۔ “
اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ ” واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر «رین» ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر «غَيْم» ہوتا ہے۔“
10399
ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے۔ اسی کا بیان «کَّلا بَلْ رَانَ» میں ہے۔ [سنن ترمذي:3334،قال الشيخ الألباني:حسن] نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے۔ [مسند احمد:297/2:حسن]
حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مومن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے۔
امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہ بیان موجود ہے فرمان ہے آیت «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ»[75-القيامة:23،22] یعنی ” اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ “
صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ ایماندار قیامت والے دن اپنے رب عزوجل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مومن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائے گا البتہ مومن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائے گا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے۔ “