تفسير ابن كثير



سورۃ الحاقة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ[25] وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ[26] يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ[27] مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ[28] هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ[29] خُذُوهُ فَغُلُّوهُ[30] ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ[31] ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ[32] إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ[33] وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ[34] فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ[35] وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ[36] لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ[37]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور لیکن جسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ [25] اور میں نہ جانتا میرا حساب کیا ہے۔ [26] اے کاش کہ وہ ( موت) کام تمام کردینے والی ہوتی۔ [27] میرا مال میرے کسی کام نہ آیا۔ [28] میری حکومت مجھ سے برباد ہو گئی۔ [29] اسے پکڑو، پس اسے طوق پہنادو۔ [30] پھر اسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دو۔ [31] پھر ایک زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، پس اسے داخل کردو۔ [32] بلاشبہ وہ بہت عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ [33] اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ [34] سو آج یہاں نہ اس کا کوئی دلی دوست ہے۔ [35] اور نہ اس کے لیے زخموں کے دھوون کے سوا کوئی کھانا ہے۔ [36] جسے گناہ گاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ [37]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وه تو کہے گا کہ کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی [25] اور میں جانتا ہی نہ کہ حساب کیا ہے [26] کاش! کہ موت (میرا) کام ہی تمام کر دیتی [27] میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ دیا [28] میرا غلبہ بھی مجھ سے جاتا رہا [29] (حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنادو [30] پھر اسے دوزخ میں ڈال دو [31] پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو [32] بیشک یہ اللہ عظمت والے پرایمان نہ رکھتا تھا [33] اور مسکین کے کھلانے پر رغبت نہ دﻻتا تھا [34] پس آج اس کا نہ کوئی دوست ہے [35] اور نہ سوائے پیﭗ کے اس کی کوئی غذا ہے [36] جسے گناه گاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا [37]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا [25] اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے [26] اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی [27] آج) میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا [28] (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی [29] (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو [30] پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو [31] پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو [32] یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا [33] اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا [34] سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوستدار نہیں [35] اور نہ پیپ کے سوا (اس کے لئے) کھانا ہے [36] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا [37]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 25، 26، 27، 28، 29، 30، 31، 32، 33، 34، 35، 36، 37،

بائیں ہاتھ اور نامہ اعمال ٭٭

یہاں گنہگاروں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب میدان قیامت میں انہیں ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یہ نہایت ہی پریشان اور پشیمان ہوں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے کاش کہ ہمیں عمل نامہ ملتا ہی نہ اور کاش کہ ہم اپنے حساب کی اس کیفیت سے آگاہ ہی نہ ہوتے کاش کہ موت نے ہمارا کام ختم کر دیا ہوتا اور یہ دوسری زندگی سرے سے ہمیں ملتی ہی نہ، جس موت سے دنیا میں بہت ہی گھبراتے تھے آج اس کی آرزوئیں کریں گے۔

یہ کہیں گے کہ ہمارے مال و جاہ نے بھی آج ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور ہماری ان چیزوں نے بھی عذاب ہم سے نہ ہٹائے، تنہا ہماری ذات پر یہ وبال آ پڑے نہ کوئی مددگار ہمیں نظر آتا ہے نہ بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ” اسے پکڑ لو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو اور اسے جہنم میں لے جاؤ اور اس میں پھینک دو۔ “

منہال بن عمرو رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے اس فرمان کو سنتے ہی کہ اسے پکڑو، ستر ہزار فرشتے اس کی طرف لپکیں گے جن میں سے اگر فرشتے بھی اس طرح اللہ تعالیٰ حکم کرے تو ایک چھوڑ ستر ہزار لوگوں کو پکڑ کر جہنم میں پھینک دے۔

ابن ابی الدنیا میں ہے کہ چار لاکھ فرشتے اس کی طرف دوڑیں گے اور کوئی چیز باقی نہ رہے گی مگر اسے توڑ پھوڑ دیں گے یہ کہے گا تمہیں مجھ سے تعلق؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ تجھ پر غضبناک ہے اور اس وجہ سے ہر چیز تجھ پر غصے میں ہے۔

فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے اس فرمان کے سرزد ہوتے ہی ستر ہزار فرشتے اس کی طرف غصے سے دوڑیں گے جن میں سے ہر ایک دوسرے پر سبقت کر کے چاہے گا کہ اسے میں طوق پہناؤں، پھر اسے جہنم کی آگ میں غوطہٰ دینے کا حکم ہو گا، پھر ان زنجیروں میں جکڑا جائے گا جن کا ایک ایک حلقہ بقول کعب احبار رضی اللہ عنہ کے دنیا بھر کے لوہے کے برابر ہو گا۔
9763

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ناپ فرشتوں کے ہاتھ کا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ یہ زنجیریں اس کے جسم میں پرو دی جائیں گی پاخانے کے راستے سے ڈال دی جائیں گی اور منہ سے نکالی جائیں گی اور اس طرح آگ میں بھونا جائے گا جیسے سیخ میں کباب اور تیل میں ٹڈی۔ یہ بھی مروی ہے کہ پیچھے سے یہ زنجیریں ڈالی جائیں گی اور ناک کے دونوں نتھنوں سے نکالی جائیں گی۔ جس سے کہ وہ پیروں کے بل کھڑا ہی نہ ہو سکے گا۔

مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بڑا سا پتھر آسمان سے پھینکا جائے تو زمین پر وہ ایک رات میں آ جائے لیکن اگر اس کو جہنمیوں کے باندھنے کی زنجیر کے سرے پر سے چھوڑا جائے تو دوسرے سرے تک پہنچے میں چالیس سال لگ جائیں۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن بتاتے ہیں۔ [سنن ترمذي:2588،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ ” یہ اللہ عظیم پر ایمان نہ رکھتا تھا نہ مسکین کو کھانا کھلا دینے کی رغبت دیتا تھا۔ “ یعنی نہ تو اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا نہ اللہ کی مخلوق کے حق ادا کر کے اسے نفع پہنچاتا تھا۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے احسان و سلوک کریں اور بھلے کاموں میں آپس میں امداد پہنچاتے رہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حقوق کو عموماً ایک ساتھ بیان فرمایا ہے جیسے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے وقت میں ان دونوں کو ایک ساتھ بیان فرمایا کہ نماز کی حفاظت کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ [سنن ابوداود:5156،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرمان ہوتا ہے کہ ” یہاں پر آج کے دن اس کا کوئی خالص دوست ایسا نہیں نہ کوئی قریبی رشتہ دار یا سفارشی ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے بچا سکے، اور نہ اس کے لیے کوئی غذا ہے سوائے بدترین سڑی بسی بے کار چیز کے جس کا نام «غِسْلِيْنٍ» ہے “۔ یہ جہنم کا ایک درخت ہے اور ممکن ہے کہ اسی کا دوسرا نام «زقوم» ہو، اور «غِسْلِيْنٍ» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جہنمیوں کے بدن سے جو خون اور پانی بہتا ہے وہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی پیپ وغیرہ۔
9764



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.