[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں اس کی جسے تم دیکھتے ہو! [38] اور جسے تم نہیں دیکھتے! [39] بلاشبہ یہ (قرآن) یقینا ایک معزز پیغام لانے والے کا قول ہے۔ [40] اور یہ کسی شاعرکا قول نہیں، تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔ [41] اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو۔ [42] (یہ) جہانوں کے رب کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ [43] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو [38] اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے [39] کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے [40] یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے [41] اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو [42] (یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے [43]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں [38] اور ان کی جو نظر میں نہیں آتیں [39] کہ یہ (قرآن) فرشتہٴ عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے [40] اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ مگر تم لوگ بہت ہی کم ایمان لاتے ہو [41] اور نہ کسی کاہن کے مزخرفات ہیں۔ لیکن تم لوگ بہت ہی کم فکر کرتے ہو [42] یہ تو) پروردگار عالم کا اُتارا (ہوا) ہے [43]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40، 41، 42، 43،
ظاہر و باطن آیات الٰہی ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنی ان نشانیوں کی قسم کھا رہا ہے جنہیں لوگ دیکھ رہے ہیں اور ان کی بھی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، اس بات پر کہ قرآن کریم اس کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے اور اپنے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے، جسے اس نے ادائے امانت اور تبلیغ رسالت کے لیے پسند فرما لیا ہے۔ رسول اللہ سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس کی اضافت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس لیے کئی گئی کہ اس کے مبلغ اور پہنچانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اسی لیے لفظ رسول لائے کیونکہ رسول تو پیغام اپنے بھیجنے والے کا پہنچاتا ہے گو زبان اس کی ہوتی ہے لیکن کہا ہوا بھیجنے والے کا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سورۃ التکویر میں اس کی نسبت اس رسول کی طرف کی گئی ہے جو فرشتوں میں سے ہیں فرمان ہے «إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ»[81-التكوير:19-25] ، یعنی ” یہ قول اس بزرگ رسول کا ہے جو قوت والا اور مالک عرش کے پاس رہنے والا ہے وہاں اس کا کہنا مانا جاتا ہے اور ہے بھی وہ امانت دار۔ “، اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں، اسی لیے اس کے بعد فرمایا ” تمہارے ساتھی یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجنون نہیں بلکہ آپ نے جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں صاف کناروں پر دیکھا بھی ہے اور وہ پوشیدہ علم پر بخیل بھی نہیں، نہ یہ شیطان رجیم کا قول ہے۔ “
اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ” نہ تو یہ شاعر کا کلام ہے، نہ کاہن کا قول ہے البتہ تمہارے ایمان میں اور نصیحت حاصل کرنے میں کمی ہے۔ “ پس کبھی تو اپنے کلام کی نسبت رسول انسی کی طرف کی اور کبھی رسول ملکی کی طرف، اس لیے کہ یہ اس کے پہنچانے والے لانے والے اور اس پر امین ہیں، ہاں دراصل کلام کس کا ہے؟ اسے بھی ساتھ ہی ساتھ بیان فرما دیا کہ ” یہ اتارا ہوا رب العالمین کا ہے۔ “
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا دیکھا کہ آپ مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں، میں بھی گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا آپ نے سورۃ الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ہے ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ ” یہ قول رسول اللہ کا ہے، شاعر کا نہیں، تم میں ایمان ہی کم ہے “ تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی، کاہن تو ضرور ہے، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ ” یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے “، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی۔ فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی۔“[سلسلة احادیث ضعیفه البانی:6531]
پس یہ بھی منجملہ ان اسباب کے جو عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا باعث ہوئے ایک خاص سبب ہے، ہم نے آپ کے اسلام لانے کی پوری کیفیت سیرت عمر میں لکھ دی ہے۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»