[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو، جب اس نے پکارا، اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ [48] اگر یہ نہ ہوتا کہ اسے اس کے رب کی نعمت نے سنبھال لیا تو یقینا وہ چٹیل زمین پر اس حال میں پھینکا جاتا کہ وہ مذمت کیا ہوا ہوتا۔ [49] پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اسے نیکوں میں شامل کر دیا۔ [50] اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا یقینا قریب ہیں کہ تجھے اپنی نظروں سے (گھور گھور کر) ضرور ہی پھسلا دیں، جب وہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یقینا یہ تو دیوانہ ہے۔ [51] حالانکہ وہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ [52] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے (انتظار کر) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی [48] اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وه برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا [49] اسے اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا [50] اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے [51] در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہی ہے [52]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے یونس کی طرح رہو نا کہ انہوں نے (خدا) کو پکارا اور وہ (غم و) غصے میں بھرے ہوئے تھے [48] اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا حال ابتر ہو جاتا [49] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکوکاروں میں کر لیا [50] اور کافر جب (یہ) نصیحت (کی کتاب) سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے یہ تو دیوانہ ہے [51] اور (لوگو) یہ (قرآن) اہل عالم کے لئے نصیحت ہے [52]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 48، 49، 50، 51، 52،
مصائب سے نجات دلانے والی دعا، نظر، فال اور شگون ٭٭
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے نبی! اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا “۔ اس سے مراد یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا، یعنی آپ علیہ السلام کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہ بہ تہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا اور «لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ»[21-الأنبياء:87] پڑھنا پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا، اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے۔
جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ «فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ»[21-الأنبياء:88] ” ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں “ اور فرماتا ہے کہ «فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ»[37-الصافات:143-144] ” اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں پڑے رہتے “۔
یہاں بھی فرمان ہے کہ ” جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا “، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو۔
9721
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ” کیا تم نے اسے پہچانا نہیں؟ “ فرشتوں نے عرض کیا نہیں، جناب باری نے فرمایا: ” یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے “۔ فرشتوں نے کہا پروردگار! پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ ہر روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” سچ ہے “، فرشتوں نے کہا پھر اے ارحم الراحمین! ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما، چنانچہ فرمان باری ہوا کہ ” اے مچھلی! تو انہیں اگل دے “ اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا۔
یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ” اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا “۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یونس بن متی سے افضل بتائے“۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے، [صحیح بخاری:3395]
اگلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گزرتے “، اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے۔
ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے“[سنن ابوداود:3889،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے [سنن ابن ماجہ:3513،قال الشيخ الألباني:صحیح] اور صحیح مسلم میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے، [صحیح مسلم:200] اور بخاری اور ترمذی میں بھی ہے۔ ایک غریب حدیث ابویعلیٰ میں ہے کہ نظر میں کچھ بھی حق نہیں ۔ [مسند احمد:5/146:صحیح] سب سے سچا شگون فال ہے ، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب کہتے ہیں [سنن ترمذي:2061،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ کوئی ڈر، خوف، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے ۔
اور روایت میں ہے کہ نظر حق ہے، نظر حق ہے، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے ۔ [مسند احمد:294/1:حسن]
9722
نظر لگنا حق ہے ٭٭
صحیح مسلم میں ہے نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کر لیا کرو ۔ [صحیح مسلم:2188]
عبدالرزاق میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے «أُعِيذكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّه التَّامَّة مِنْ كُلّ شَيْطَان وَهَامَة وَمِنْ كُلّ عَيْن لَامَّة» یعنی تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے، اور فرماتے کہ ابراہیم علیہ السلام بھی اسحاق اور اسماعیل کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے ، یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:3371]
ابن ماجہ میں ہے کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی پر تمہارا شک بھی ہے؟“ لوگوں نے کہا، ہاں، عامر بن ربیعہ پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہیئے کہ اس کے لیے برکت کی دعا کرے“، پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا: ”تم وضو کرو، منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمبد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو“۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو“۔ نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ [سنن نسائی:7617،قال الشيخ الألباني:صحیح]
9723
نظر لگنے کا دم ٭٭
ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب سورۃ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا ، [سنن ابن ماجہ:3511،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند وغیرہ میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی! کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك مِنْ كُلّ شَيْء يُؤْذِيك مِنْ شَرّ كُلّ نَفْس أَوْ عَيْن حَاسِد اللَّه يَشْفِيك بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك»۔ [صحیح مسلم:2186]
بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے ۔ [صحیح بخاری:5740]
مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے ۔ [مسند احمد:2/439:ضعیف]
مسند کی اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر، گھوڑا اور عورت تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا، ہاں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے“۔ [مسند احمد:289/2:صحیح لغیرہ]
ترمذی وغیرہ میں ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی“۔ [سنن ترمذي:2059،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے ۔ [صحیح بخاری:5738]
9724
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا۔ [سنن ابوداود:3880،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور حدیث میں ہے نہیں ہے الو اور نظر حق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے ۔ مسند احمد میں بھی سیدنا سہل اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہما والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے، [مسند احمد:486/3:صحیح]
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہ پانی میں غسل کے لیے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور واقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے، تہمبد اونچا اٹھائے ہوئے، وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی «اللَّهُمَّ اِصْرِفْ عَنْهُ حَرّهَا وَبَرْدهَا وَوَصَبهَا»”اے اللہ! تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے“۔ [مسند احمد:447/3:ضعیف]
9725
مسند بزار میں ہے کہ میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی ۔ [مسند بزار:3052:ضعیف]
فرماتے ہیں نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک، میری امت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے ۔ [ضعیف] ایک اور صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے، [ابو نعیم فی الحیلة:90/7]
فرمان رسالت ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے، ہاں نظر سچ ہے ۔ [مسند احمد:2/222:صحیح]
ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا: ”حسن اور حسین کو نظر لگ گئی ہے“، فرمایا: یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کلمات کیا ہیں؟“ فرمایا: یوں کہیئے «للَّهُمَّ ذَا السُّلْطَان الْعَظِيم وَالْمَنّ الْقَدِيم ذَا الْوَجْه الْكَرِيم وَلِيّ الْكَلِمَات التَّامَّات وَالدَّعَوَات الْمُسْتَجَابَات عَافِ الْحَسَن وَالْحُسَيْن مِنْ أَنْفُس الْجِنّ وَأَعْيُن الْإِنْس» یعنی اے اللہ! اے بہت بڑی بادشاہی والے، اے زبردست قدیم احسانوں والے، اے بزرگ تر چہرے والے، اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں“۔ [ابن عساکر فی تاریخہ:503/8]
پھر فرماتا ہے کہ ” جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں “۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے ” قرآن تو اللہ ان کی طرف سے تمام عالم کے لیے نصیحت نامہ ہے “۔