[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ ہو کر رہنے والی۔ [1] کیا ہے وہ ہو کر رہنے والی؟ [2] اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ وہ ہو کر رہنے والی کیا ہے؟ [3] ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والی(قیامت) کو جھٹلادیا۔ [4] سو جو ثمود تھے وہ حد سے بڑھی ہوئی (آواز) کے ساتھ ہلاک کر دیے گئے۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ﺛابت ہونے والی [1] ﺛابت ہونے والی کیا ہے؟ [2] اور تجھے کیا معلوم ہے کہ وه ﺛابت شده کیا ہے؟ [3] اس کھڑکا دینے والی کو ﺛمود اور عاد نے جھٹلا دیا تھا [4] (جس کے نتیجہ میں) ﺛمود تو بے حد خوفناک (اور اونچی) آواز سے ہلاک کردیئے گئے [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] سچ مچ ہونے والی [1] وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے؟ [2] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے؟ [3] کھڑکھڑانے والی (جس) کو ثمود اور عاد (دونوں) نے جھٹلایا [4] سو ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیئے گئے [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5،
حاقہ ٭٭
«حَاقَّه» قیامت کا ایک نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ وعدے وعید کی عملی تعبیر اور حقیقت کا دن وہی ہے، اسی لیے اس دن کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے فرمایا: ” تم اس «حاقہ» کی صحیح کیفیت سے بے خبر ہو “، پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن لوگوں نے اسے جھٹلایا اور خمیازہ اٹھایا تھا تو فرمایا: ” ثمودیوں کو دیکھو ایک طرف سے فرشتے کے دہاڑنے اور کلیجوں کو پاش پاش کر دینے والی آواز آتی ہے تو دوسری جانب سے زمین میں غضبناک بھونچال آتا ہے اور سب تہ و بالا ہو جاتے ہیں۔ “
پس بقول قتادہ رحمہ اللہ «طَّاغِيَةِ» کے معنی چنگھاڑ کے ہیں، اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسے مراد گناہ ہیں یعنی وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد کر دیئے گئے۔
سیدنا ربیع بن انس اور سیدنا ابن زید رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ اس سے مراد ان کی سرکشی ہے۔ سیدنا ابن زید نے اس کی شہادت میں یہ آیت پڑھی «كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ»[91-الشمس:11] یعنی ” ثمودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلایا۔ “ یعنی اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور قوم عاد کی ٹھنڈی ہواؤں کے تیز جھونکوں سے دل چھید دیئے اور وہ نیست و نابود کر دیئے گئے۔