وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ[23] أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ[24]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا یہ ہے وہ جو میرے پاس تیار ہے۔ [23] جہنم میں پھینک دو تم دونوں (فرشتے) ہر زبردست ناشکرے کو، جو بہت عناد رکھنے والا ہے ۔ [24]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر ہے جو کہ میرے پاس تھا [23] ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو [24]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا کہ یہ (اعمال نامہ) میرے پاس حاضر ہے [23] (حکم ہوگا کہ) ہر سرکش ناشکرے کو دوزخ میں ڈال دو [24]۔
........................................
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ جو فرشتہ ابن آدم کے اعمال پر مقرر ہے وہ اس کے اعمال کی شہادت دے گا اور کہے گا کہ یہ ہے میرے پاس تفصیل بلا کم و کاست حاضر ہے۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اس فرشتے کا کلام ہو گا جسے سائق کہا گیا ہے جو اس کو محشر میں لے آیا تھا۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ وہ اس فرشتے پر بھی اور گواہی دینے والے فرشتے دونوں پہ مشتمل ہے اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے عدل و انصاف سے کرے گا۔
«القیا» تثنیہ کا صیغہ ہے بعض نحوی کہتے ہیں کہ بعض عرب واحد کو «تثنیہ» کر دیا کرتے ہیں جیسے کہ حجاج کا مقولہ مشہور ہے کہ وہ اپنے جلاد سے کہتا تھا «اضربا عنقہ» تم دونوں اس کی گردن مار دو حالانکہ جلاد ایک ہی ہوتا تھا۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی شہادت میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:422/11]
بعض کہتے ہیں کہ دراصل یہ نون تاکید ہے جس کی تسہیل الف کی طرف کر لی ہے لیکن یہ بعید ہے اس لیے کہ ایسا تو وقف کی حالت میں ہوتا ہے بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب اوپر والے دونوں فرشتوں سے ہو گا، لانے والے فرشتے نے اسے حساب کے لیے پیش کیا اور گواہی دینے والے نے گواہی دے دی تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو حکم دے گا کہ اسے جہنم کی آگ میں ڈال دو جو بدترین جگہ ہے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔