[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جو خیر کو بہت روکنے والا، حد سے گزرنے والا، شک کرنے والا ہے۔ [25] جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا، سو دونوں اسے بہت سخت عذاب میں ڈال دو۔ [26] اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب !میں نے اسے سر کش نہیں بنایا اور لیکن وہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا۔ [27] فرمایا میرے پاس جھگڑا مت کرو، حالانکہ میں نے تو تمھاری طرف ڈرانے کا پیغام پہلے بھیج دیا تھا۔ [28] میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی اور میں بندوں پر ہرگز کوئی ظلم ڈھانے والا نہیں۔ [29] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو نیک کام سے روکنے واﻻ حد سے گزر جانے واﻻ اور شک کرنے واﻻ تھا [25] جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو [26] اس کا ہمنشین (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراه نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا [27] حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑنے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہٴ عذاب) بھیج چکا تھا [28] میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ﻇلم کرنے واﻻ ہوں [29]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھنے والا شبہے نکالنے والا تھا [25] جس نے خدا کے ساتھ اور معبود مقرر کر رکھے تھے۔ تو اس کو سخت عذاب میں ڈال دو [26] اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپ ہی رستے سے دور بھٹکا ہوا تھا [27] (خدا) فرمائے گا کہ ہمارے حضور میں ردوکد نہ کرو۔ ہم تمہارے پاس پہلے ہی (عذاب کی) وعید بھیج چکے تھے [28] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے [29]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 25، 26، 27، 28، 29،
باب
پھر فرماتا ہے کہ ہر کافر اور ہر حق کے مخالف اور ہر حق کے نہ ادا کرنے والے اور ہر نیکی صلہ رحمی اور بھلائی سے خالی رہنے والے اور ہر حد سے گزر جانے والے خواہ وہ مال کے خرچ میں اسراف کرتا ہو، خواہ بولنے اور چلنے پھرنے میں اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہر شک کرنے والے اور ہر اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے لیے یہی حکم ہے کہ اسے پکڑ کر سخت عذاب میں ڈال دو۔
پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جہنم قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اپنی گردن نکالے گی اور باآواز بلند پکار کر کہے گی جسے تمام محشر کا مجمع سنے گا کہ میں تین قسم کے لوگوں پر مقرر کی گئی ہوں ہر سرکش حق کے مخالف کے لیے اور ہر مشرک کے لیے اور ہر تصویر بنانے والے کے لیے، پھر وہ ان سب سے لپٹ جائے گی۔
مسند کی حدیث میں تیسری قسم کے لوگ وہ بتائے ہیں جو ظالمانہ قتل کرنے والے ہوں۔[مسند احمد:40/3:ضعیف]
پھر فرمایا اس کا ساتھی کہے گا، اس سے مراد شیطان ہے جو اس کے ساتھ موکل تھا یہ اس کافر کو دیکھ کر اپنی براءت کرے گا اور کہے گا کہ میں نے اسے نہیں بہکایا بلکہ یہ تو خود گمراہ تھا باطل کو از خود قبول کر لیتا تھا حق کا اپنے آپ مخالف تھا۔
8730
جیسے دوسری آیت میں ہے کہ «وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ»[14-إبراهيم:22] ” شیطان جب دیکھے گا کہ کام ختم ہوا تو کہے گا اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی، میرا کوئی زور تو تم پر تھا ہی نہیں، میں نے تم سے کہا تم نے فوراً مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی جانوں کو ملامت کرو، نہ میں تمہیں کام دے سکوں گا، نہ تم میرے کام آ سکوں تم جو مجھے شریک بنا رہے تھے تو میں پہلے ہی سے ان کا انکاری تھا، ظالموں کے لیے المناک عذاب ہیں۔ “
پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے اور اس کے ساتھی شیطان سے فرمائے گا کہ میرے سامنے نہ جھگڑو کیونکہ انسان کہہ رہا ہو گا کہ اللہ اس نے مجھے جبکہ میرے پاس نصیحت آ چکی گمراہ کر دیا اور شیطان کہے گا اللہ میں نے اسے گمراہ نہیں کیا، تو اللہ انہیں تو تو میں میں سے روک دے گا اور فرمائے گا، میں تو اپنی حجت ختم کر چکا رسولوں کی زبانی یہ سب باتیں تمہیں سنا چکا تھا، تمہیں کتابیں بھیج دی تھیں اور ہر ہر طریقہ سے ہر طرح سے تمہیں سمجھا بھجا دیا تھا، ہر شخص پر اتمام حجت ہو چکی اور ہر شخص اپنے گناہوں کا خود ذمہ دار ہے۔