[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ [15] اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے۔ [16] اور یہ اللہ پر کچھ مشکل نہیں۔ [17] اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہو ئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو، تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ [18] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز خوبیوں واﻻ ہے [15] اگر وه چاہے تو تم کو فنا کردے اور ایک نئی مخلوق پیدا کردے [16] اور یہ بات اللہ کو کچھ مشکل نہیں [17] کوئی بھی بوجھ اٹھانے واﻻ دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا تو وه اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہو۔ تو صرف ان ہی کو آگاه کرسکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور جو بھی پاک ہوجائے وه اپنے ہی نفع کے لئے پاک ہوگا۔ لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے [18]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] لوگو تم (سب) خدا کے محتاج ہو اور خدا بےپروا سزاوار (حمد وثنا) ہے [15] اگر چاہے تو تم کو نابود کردے اور نئی مخلوقات لا آباد کرے [16] اور یہ خدا کو کچھ مشکل نہیں [17] اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبر) تم انہی لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز بالالتزام پڑھتے ہیں۔ اور جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لئے پاک ہوتا ہے۔ اور (سب کو) خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے [18]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 15، 16، 17، 18،
اللہ قادر مطلق ٭٭
اللہ ساری مخلوق سے بے نیاز ہے اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے۔ وہ غنی ہے اور سب فقیر ہیں۔ وہ بےپرواہ ہے اور سب اس کے حاجت مند ہیں۔ اس کے سامنے ہر کوئی ذلیل ہے اور وہ عزیز ہے۔کسی قسم کی حرکت و سکون پر کوئی قادر نہیں سانس تک لینا کسی کے بس میں نہیں۔ مخلوق بالکل ہی بیبس ہے۔ غنی بےپرواہ اور بے نیاز صرف اللہ ہی ہے تمام باتوں پر قادر وہی ہے وہ جو کرتا ہے اس میں قابل تعریف ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت و تعریف سے خالی نہیں۔ اپنے قول میں، اپنے فعل میں اپنی شرع میں تقدیروں کے مقرر کرنے میں غرض ہر طرح سے وہ بزرگ اور لائق حمد و ثناء ہے۔ لوگو اللہ کی قدرت ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو غارت و برباد کر دے اور تمہارے عوض دوسرے لوگوں کو لائے، رب پر یہ کام کچھ مشکل نہیں، قیامت کے دن کوئی دوسرے کے گناہ اپنے اوپر نہ لے گا۔ اگر کوئی گنہگار اپنے بعض یا سب گناہ دوسرے پر لادنا چاہے تو یہ چاہت بھی اس کی پوری نہ ہو گی۔
7260
کوئی نہ ملے گا کہ اس کا بوجھ بٹائے عزیز و اقارب بھی منہ موڑ لیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ گو ماں باپ اور اولاد ہو۔ ہر شخص اپنے حال میں مشغول ہو گا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پڑوسی پڑوسی کے پیچھے پڑ جائے گا اللہ سے عرض کرے گا کہ اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھ سے اپنا دروازہ کیوں بند کر لیا تھا؟ کافر مومن کے پیچھے لگ جائے گا اور جو احسان اس نے دنیا میں کئے تھے وہ یاد دلا کر کہے گا کہ آج میں تیرا محتاج ہوں مومن بھی اس کی سفارش کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کا عذاب قدرے کم ہو جائے گو جہنم سے چھٹکارا محال ہے۔ باپ اپنے بیٹے کو اپنے احسان جتائے گا اور کہے گا کہ رائی کے ایک دانے برابر مجھے آج اپنی نیکیوں میں سے دیدے وہ کہے گا ابا آپ چیز تو تھوڑی سی طلب فرما رہے ہیں لیکن آج تو جو کھٹکا آپ کو ہے وہی مجھے بھی ہے میں تو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ پھر بیوی کے پاس جائے گا اس سے کہے گا میں نے تیرے ساتھ دنیا میں کیسے سلوک کئے ہیں؟ وہ کہے گی بہت ہی اچھے یہ کہے گا آج میں تیرا محتاج ہوں مجھے ایک نیکی دیدے تاکہ عذابوں سے چھوٹ جاؤں جواب ملے گا کہ سوال تو بہت ہلکا ہے لیکن جس خوف میں تم ہو وہی ڈر مجھے بھی لگا ہوا ہے میں تو آج کچھ بھی سلوک نہیں کر سکتی۔
7261
قرآن کریم کی اور آیت میں ہے «يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖۡ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـيْـــــًٔا ۭ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ باللّٰهِ الْغَرُوْرُ» [31-لقمان:33] یعنی آج نہ باپ بیٹے کے کام آئے نہ بیٹا باپ کے کام آئے اور فرمان ہے «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ»[80-عبس:34] ، آج انسان اپنے بھائی سے، ماں سے، باپ سے، بیوی سے اور اولاد سے بھاگتا پھر ے گا۔ ہر شخص اپنے حال میں سمت و بیخود ہو گا۔ ہر ایک دوسرے سے غافل ہو گا، تیرے وعظ و نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عقلمند اور صاحب فراست ہوں جو اپنے رب سے قدم قدم پر خوف کرنے والے اور اطاعت اللہ کرتے ہوئے نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں۔ نیک اعمال خود تم ہی کو نفع دیں گے جو پاکیزگیاں تم کروگے ان کا نفع تم ہی کو پہنچے گا۔ آخر اللہ کے پاس جانا ہے، اس کے سامنے پیش ہونا ہے، حساب کتاب اس کے سامنے ہونا ہے، اعمال کا بدلہ وہ خود دینے والا ہے۔