تفسير ابن كثير



سورۃ الروم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[38] وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ[39] اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ[40]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس قرابت والے کو اس کا حق دے اور مسکین کو اور مسافر کو۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کا چہرہ چاہتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ [38] اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔ [39] اللہ وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر تمھیں رزق دیا، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، کیا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرے؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ [40]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منھ دیکھنا چاہتے ہوں، ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں [38] تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وه اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو کچھ صدقہ زکوٰة تم اللہ تعالیٰ کا منھ دیکھنے (اورخوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی اپنا دو چند کرنے والے ہیں [39] اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر روزی دی پھر مار ڈالے گا پھر زنده کر دے گا بتاؤ تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ بھی کر سکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لئے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں [40]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو اہلِ قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔ جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں یہ اُن کے حق میں بہتر ہے۔ اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں [38] اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند سہ چند کرنے والے ہیں [39] خدا ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں مارے گا۔ پھر زندہ کرے گا۔ بھلا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر سکے۔ وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے [40]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40،

صلہ رحمی کی تاکید ٭٭

قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے۔

مسافر جس کا خرچ کم پڑ گیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی۔

اس دوسری آیت کی تفسیر تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مجاہد، ضحاک، قتادۃ، عکرمہ، محمد بن کعب اور شعبی رحمہ اللہ علیہم سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہوگا۔
6802

اسی کی مشابہ آیت «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ» [74-المدثر:6] ‏‏‏‏ ہے یعنی ” زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں۔‏‏‏‏

صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کھجور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے ۔ [صحیح بخاری:1410] ‏‏‏‏

اللہ ہی خالق ورازق ہے۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا، بےعلم، بے کان، بےآنکھ، بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے۔ مال، ملکیت، کمائی، تجارت غرض بےشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے۔
6803

دوصحابیوں رضوان اللہ علیہم کا بیان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو سرہ لنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے ۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:4798،] ‏‏‏‏۔

اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کر رہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے۔ وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا۔ اس کی مقدس، منزہ، معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ «احد» ہے، «صمد» ہے، فرد ہے، ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کفو کوئی نہیں۔
6804



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.