[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اسے لے کر شیاطین نہیں اترے۔ [210] اور نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ وہ یہ کر سکتے ہیں۔ [211] بلاشبہ وہ تو سننے ہی سے الگ کیے ہوئے ہیں۔ [212] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس قرآن کو شیطان نہیں ﻻئے [210] نہ وه اس کے قابل ہیں، نہ انہیں اس کی طاقت ہے [211] بلکہ وه تو سننے سے بھی محروم کردیے گئے ہیں [212]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے [210] یہ کام نہ تو ان کو سزاوار ہے اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں [211] وہ (آسمانی باتوں) کے سننے (کے مقامات) سے الگ کر دیئے گئے ہیں [212]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 210، 211، 212،
یہ کتاب عزیز ٭٭
” یہ کتاب عزیز جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے جس کو روح الامین جو قوت وطاقت والے ہیں لے کر آئیں ہیں اسے شیاطین نہیں لائے “
۔ پھر ان کے نہ لانے پر تین وجوہات بیان کی گئیں، ایک تو یہ کہ وہ اس کے لائق نہیں۔ ان کا کام مخلوق کو بہکانا ہے نہ کہ راہ راست پر لانا۔ «الْأَمْر بِالْمَعْرُوفِ» اور «وَالنَّهْي عَنْ الْمُنْكَر» جو اس کتاب کی شان ہے اس کے سراسر خلاف ہے۔ یہ نور یہ ہدایت ہے یہ برہان ہے اور شیاطین ان تینوں چیزوں سے چڑتے ہیں وہ ظلمت کے دلدادہ اور ضلالت کے ہیرو ہیں۔ وہ جہالت کے شیدا ہیں پس اس کتاب میں اور ان میں تو تباین اور اختلاف ہے۔ کہاں وہ کہاں یہ؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں اس کے اہل نہیں وہاں ان میں اس کو اٹھانے اور لانے کی طاقت بھی نہیں۔ «لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ»[59-الحشر:21] یہ تو وہ ذی عزت والا کام ہے کہ ” اگر کسی بڑے سے بڑے پہاڑ بھی اترے تو اس کو بھی چکنا چور کر دے “۔
6352
پھر تیسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ ” وہ تو اس کے نزول کے وقت ہٹادئیے گئے تھے انہیں تو سننا بھی نہیں ملا۔ تمام آسمان پر سخت پہرہ چوکی تھی یہ سننے کے لیے چڑھتے تھے تو ان پر آگ برسائی جاتی تھیں۔ اس کا ایک حرف سن لینا بھی ان کی طاقت سے باہر تھا۔ تاکہ اللہ کا کلام محفوظ طریقے پر اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے مخلوق الٰہی کو پہنچے “۔
جیسے سورۃ الجن میں «وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا»[72-الجن:8-10] خود جنات کا مقولہ بیان ہوا ہے کہ ” ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہر چوکی سے بھرپور پایا اور جگہ جگہ شعلے متعین پائے پہلے تو ہم بیٹھ کراکا دکا بات اڑا لایا کرتے تھے لیکن اب تو کان لگاتے ہی شعلہ لپکتا ہے اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے “۔