[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اسی طرح ہم نے یہ بات مجرموں کے دلوں میں داخل کر دی۔ [200] وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ [201] پس وہ ان پر اچانک آپڑے اور وہ سوچتے بھی نہ ہوں۔ [202] تو وہ کہیں کیا ہم مہلت دیے جانے والے ہیں۔ [203] تو کیا وہ ہمارا عذاب ہی جلدی مانگتے ہیں۔ [204] پس کیا تو نے دیکھا اگر ہم انھیں کئی سال فائدہ دیں۔ [205] پھر ان کے پاس وہ چیز آجا ئے جس کا وہ وعدہ دیے جاتے تھے۔ [206] تو وہ فائدہ جو وہ دیے جاتے تھے، ان کے کس کام آئے گا؟ [207] اور ہم نے کوئی بستی تباہ نہیں کی مگر اس کے لیے کئی ڈرانے والے تھے۔ [208] یاد دہانی کے لیے اور ہم ظالم نہ تھے۔ [209] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے [200] وه جب تک دردناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کرلیں ایمان نہ ﻻئیں گے [201] پس وه عذاب ان کو ناگہاں آجائے گا انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو گا [202] اس وقت کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت دی جائے گی؟ [203] پس کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟ [204] اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائده اٹھانے دیا [205] پھر انہیں وه عذاب آ لگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھے [206] تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائده نہ پہنچا سکے گا [207] ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے [208] نصیحت کے طور پر اور ہم ﻇلم کرنے والے نہیں ہیں [209]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اسی طرح ہم نے انکار کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیا [200] وہ جب تک درد دینے والا عذاب نہ دیکھ لیں گے، اس کو نہیں مانیں گے [201] وہ ان پر ناگہاں آ واقع ہوگا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی [202] اس وقت کہیں گے کیا ہمیں ملہت ملے گی؟ [203] تو کیا یہ ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں [204] بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو برسوں فائدے دیتے رہے [205] پھر ان پر وہ (عذاب) آ واقع ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے [206] تو جو فائدے یہ اٹھاتے رہے ان کے کس کام آئیں گے [207] اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کے لئے نصیحت کرنے والے (پہلے بھیج دیتے) تھے [208] نصیحت کردیں اور ہم ظالم نہیں ہیں [209]۔ ........................................
تکذیب وکفر انکار وعدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بے سود ہو گا ان پر لعنت برس چکی ہو گی۔ برائی مل چکی ہوگی۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بے خبری میں ہی آ جائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بے سود ہونگی۔
ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم، فاجر، فاسق، کافر بدکار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہو جاتا ہے، نادم ہوتا ہے توبہ تلافی کرتا ہے مگر سب لا حاصل۔
6340
فرعون ہی کو دیکھئیے موسیٰ علیہ السلام نے اس کے لیے بد دعا کی «وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ»[10-يونس:88،89] جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ ”اب میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن جواب ملا کہ ” یہ ایمان بےسود ہے “۔
اسی طرح ایک اور آیت میں «وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ»[10-يونس:90-91] ہے کہ ” ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا “۔
پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ ” وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آجائے۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ وحشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سابھی فائدہ نہیں دے سکتی۔ اس وقت تک یہی معلوم ہو گا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے “۔
جیسے ایک اور آیت میں ہے «يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌ بِمَا يَعْمَلُوْنَ»[2-البقرة:96] ، ” ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی “۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ ” اسباب ان کے کچھ کام نہ آئیں گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے “۔
چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا، پھر آگ میں ایک غوطہٰ دلا کر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو۔ اسے جنت کی ہوا کھلا کر لایا جائے گا اور سوال ہو گا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھائی ۔ [صحیح مسلم:2807] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عموماً یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ ”جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا۔“
6341
اللہ عزوجل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ ” کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا “۔ رسولوں کو بھیجتا، کتابیں اتارتا ہے، خبریں دیتا ہے، ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔
پس فرمایا کہ ” ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں “۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کر کے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا ” تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول کو نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے “۔