[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! بے شک ہم ایمان لے آئے، سو ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ [16] جو صبر کرنے والے اور سچ کہنے والے اور حکم ماننے والے اور خرچ کرنے والے اور رات کی آخری گھڑیوں میں بخشش مانگنے والے ہیں۔ [17] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان ﻻ چکے اس لئے ہمارے گناه معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا [16] جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راه میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں [17]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو ہمارے گناہ معاف فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ [16] یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں [17]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 16، 17،
متقیوں کا تعارف ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں۔
کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کرنے میں حاجت مندوں، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہی فرمایا تھا کہ «سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ»[12-يوسف:98] میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، اس سے مراد بھی سحری کا وقت ہے، اپنی اولاد سے فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت میں تمہارے لیے استغفار کروں گا۔
1036
بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں جو بہت سے صحابیوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے؟ جسے میں دوں، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں؟ [صحیح بخاری:1145]
حافظ ابوالحسن دارقطنی رحمہ اللہ نے تو اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں حدیث کی تمام سندوں کو اور اس کے کل الفاظ کو وارد کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات درمیانی اور آخری رات میں وتر پڑھے ہیں، سب سے آخری وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کا سحری تک تھا۔ [صحیح بخاری:996]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو تہجد پڑھتے رہتے اور اپنے غلام نافع سے پوچھتے کیا سحر ہو گئی، جب وہ کہتے ہاں تو آپ صبح صادق کے نکلنے کی دعا استغفار میں مشغول رہتے، [تفسیر ابن ابی حاتم:2/145]
سیدنا حاطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں سحری کے وقت میں نے سنا کہ کوئی شخص مسجد کے کسی گوشہ میں کہہ رہا ہے اے اللہ تو نے مجھے حکم کیا میں بجا لایا، یہ سحر کا وقت ہے مجھے بخش دے، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں حکم کیا جاتا تھا کہ ہم جب تہجد کی نماز پڑھیں تو سحری کے آخری وقت ستر مرتبہ استغفار کریں اللہ سے بخشش کی دعا کریں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:6754]