تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ[18] إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ[19] فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ[20]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [18] بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی انھوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا، آپس میں ضد کی وجہ سے اور جو اللہ کی آیات کا انکار کرے تو بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والاہے۔ [19] پھر اگر وہ تجھ سے جھگڑا کریں تو کہہ دے میں نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیااور اس نے بھی جس نے میری پیروی کی، اور ان لوگوں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کیا تم تابع ہوگئے؟ پس اگر وہ تابع ہو جائیں تو بے شک ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ [20]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے واﻻ ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں [18] بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے واﻻ ہے [19] پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں توآپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے اور اہل کتاب سے اور انپڑھ لوگوں سے کہہ دیجیئے! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہداہت والے ہیں اور اگر یہ روگردانی کریں، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے [20]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں [18] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص خدا کی آیتوں کو نہ مانے تو خدا جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے [19] اے پیغمبر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑنے لگیں تو کہنا کہ میں اور میرے پیرو تو خدا کے فرمانبردار ہو چکے اور اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہو کہ کیا تم بھی (خدا کے فرمانبردار بنتے ہو) اور اسلام لاتے ہو؟ اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بے شک ہدایت پالیں اور اگر (تمہارا کہا) نہ مانیں تو تمہارا کام صرف خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے اور خدا (اپنے) بندوں کو دیکھ رہا ہے [20]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 18، 19، 20،

اللہ وحدہ لاشریک اپنی وحدت کا خود شاہد ٭٭

اللہ تعالیٰ خود شہادت دیتا ہے بس اس کی شہادت کافی ہے وہ سب سے زیادہ سچا گواہ ہے، سب سے زیادہ سچی بات اسی کی ہے، وہ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق اس کی غلام ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ اور اسی کی محتاج ہے، وہ سب سے بے نیاز ہے، الوہیت میں اللہ ہونے میں وہ یکتا اور لاشریک ہے، اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں۔

جیسے فرمان ہے «لَّـٰكِنِ اللَّـهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا» [4-النساء:166] ‏‏‏‏ یعنی لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جو وہ تیری طرف اپنے علم سے اتار رہا ہے، گواہی دے رہا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے، پھر اپنی شہادت کے ساتھ فرشتوں کی شہادت پر علماء کی گواہی کو ملا رہا ہے۔ یہاں سے علماء کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ خصوصیت۔
1039

«قَائِمًا» کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے وہ اللہ ہر وقت اور حال میں ایسا ہی ہے، پھر تاکیداً دوبارہ ارشاد ہوتا ہے کہ معبود حقیقی صرف وہی ہے، وہ غالب ہے، عظمت اور کبریائی والی اس کی بارگاہ ہے، وہ اپنے اقوال افعال اور شریعت قدرت و تقدیر میں حکمتوں والا ہے۔

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس آیت کی تلاوت کی اور «‏‏‏‏الْحَكِيمُ» ‏‏‏‏تک پڑھ کر فرمایا «وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ يَا رَبِّ» ۔ [مسند احمد:1/166:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے آپ نے یوں فرمایا «وأنا أشهد أي رَبِّ» [طبرانی:250،قال الشيخ زبیرعلی زئی:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے سیدنا غالب قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں کوفے میں تجارتی غرض سے گیا اور سیدنا اعمش رحمہ اللہ کے قریب ٹھہرا، رات کو سیدنا اعمش رحمہ اللہ تہجد کیلئے کھڑے ہوئے پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچے اور «اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ» ‏‏‏‏ [3-آل عمران:19] ‏‏‏‏ پڑھا تو فرمایا «وانا اشھد بما شھد اللہ بہ واستودع اللہ ھذہ الشھادۃ وھی لی عند اللہ ودیعتہ» یعنی میں بھی شہادت دیتا ہوں اس کی جس کی شہادت اللہ نے دی اور میں اس شہادت کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ میری امانت اللہ کے پاس ہے۔

پھر کئی دفعہ «اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ» ‏‏‏‏ [3-آل عمران:19] ‏‏‏‏ پڑھا، میں نے اپنے دِل میں خیال کیا کہ شاید اس بارے میں کوئی حدیث سنی ہو گی، صبح ہی صبح میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ابومحمد رحمہ اللہ کیا بات تھی جو آپ اس آیت کو باربار پڑھتے رہے؟ کہا کیا اس کی فضیلت تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے کہا میں تو مہینہ بھر سے آپ کی خدمت میں ہوں لیکن آپ نے حدیث بیان ہی نہیں کی، کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو سال بھر تک بیان نہ کروں گا، اب میں اس حدیث کے سننے کی خاطر سال بھر تک ٹھہرا رہا اور ان کے دروازے پر پڑا رہا جب سال کامل گزر چکا تو میں نے کہا اے ابو محمد سال گزر چکا ہے سُن مجھ سے ابووائل نے حدیث بیان کی، اس نے عبداللہ سے سنا، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اللہ عزوجل فرمائے گا میرے اس بندے نے میرا عہد لیا ہے اور میں عہد کو پورا کرنے میں سب سے افضل و اعلیٰ ہوں، میرے اس بندے کو جنت میں لے جاؤ۔ [طبرانی کبیر:10453:ضعیف جداً] ‏‏‏‏
1040

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وہ صرف اسلام ہی کو قبول فرماتا ہے، اسلام ہر زمانے کے پیغمبر کی وحی کی تابعداری کا نام ہے، اور سب سے آخر اور سب رسولوں کو ختم کرنے والے ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کے سب راستے بند ہو گئے اب جو شخص آپ کی شریعت کے سوا کسی چیز پر عمل کرے اللہ کے نزدیک وہ صاحب ایمان نہیں جیسے اور جگہ ہے «وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ» [3-آل عمران:85] ‏‏‏‏ جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اس آیت میں دین کا انحصار اسلام میں کر دیا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ» ہے اور «إِنَّ الْإِسْلَامَُ» ‏‏‏‏ہے، تو معنی یہ ہوں گے، خود اللہ کی گواہی ہے اور اس کے فرشتوں اور ذی علم انسانوں کے نزدیک مقبول ہونے والا دین صرف اسلام ہی ہے، جمہور کی قرأت میں «إِنَّ» زیر کے ساتھ ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں ہی ٹھیک ہیں، لیکن جمہور کا قول زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پہلی کتاب والوں نے اپنے پاک اللہ کے پیغمبروں کے آنے اور اللہ کی کتابیں نازل ہونے کے بعد بھی اختلاف کیا، جس کی وجہ سے صرف ان کا آپس کا بغض و عناد تھا کہ میں اس کیخلاف ہی چلوں چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، پھر ارشاد ہے کہ جب اللہ کی آیتیں اتر چکی، اب جو ان کا انکار کرے انہیں نہ مانے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اس کی تکذیب کا بہت جلد حساب لے گا اور کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے سخت عذاب دے گا اور اسے اس کی اس شرارت کا لطف چکھائے گا۔
1041

پھر فرمایا اگر یہ لوگ تجھ سے توحید باری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں تو خالص اللہ ہی کی عبادت کروں گا جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی اور جو میرے امتی ہیں میرے دین پر ہیں۔ ان سب کا قول بھی یہی ہے، جیسے اور جگہ فرمایا «قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [12-يوسف:108] ‏‏‏‏یعنی میری راہ یہی ہے میں خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، میں بھی اور میرے تابعدار بھی یہی دعوت دے رہے ہیں۔

پھر حکم دیتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب ہے اور مشرکین سے جو اَن پڑھ ہیں کہہ دو کہ تم سب کی ہدایت اسلام میں ہی ہے اور اگر یہ نہ مانیں تو کوئی بات نہیں، آپ اپنا فرض تبلیغ ادا کر چکے، اللہ خود ان سے سمجھ لے گا، ان سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے وہ جسے سیدھا راستہ دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے، اپنی حکمت کو وہی خوب جانتا ہے اس کی حجت تو پوری ہو کر ہی رہتی ہے، اس کی اپنے بندوں پر نظر ہے «لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ» [21-الأنبياء:23] ‏‏‏‏ اسے خوب معلوم ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور کون ضلالت کا مستحق ہے؟ اس سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا۔
1042

دوسری آیتوں میں بھی صاف صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہیں، اور خود آپ کے دین کے احکام بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں اسی مفہوم کی ہیں، قرآن پاک میں ایک جگہ ہے «‏‏‏‏يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا» [7-الأعراف:158] ‏‏‏‏ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

اور آیت میں ہے «تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا» [25-الفرقان:1] ‏‏‏‏ بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کیلئے تنبیہ کرنے والا بن جائے۔

بخاری و مسلم وغیرہ میں کئی کئی واقعات سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم کے تمام بادشاہوں کو اور دوسرے اطراف کے لوگوں کو خطوط بھجوائے جن میں انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی خواہ وہ عرب ہوں عجم ہوں اہل کتاب ہوں مذہب والے ہوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے فرض کو تمام و کمال تک پہنچا دیا۔ [صحیح بخاری:65] ‏‏‏‏

مسند عبدالرزاق میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت میں سے جس کے کان میں میری نسبت کی آواز پہنچے اور وہ میری لائی ہوئی چیز پر ایمان نہ لائے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو مگر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے گا تو قطعاً جہنمی ہو گا۔‏‏‏‏ [صحیح مسلم:153] ‏‏‏‏

مسلم شریف میں بھی یہ حدیث مروی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ میں ہر ایک سرخ و سیاہ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ [صحیح مسلم:521] ‏‏‏‏
1043

ایک اور حدیث میں ہے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا اور میں تمام انسانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ [صحیح بخاری:335] ‏‏‏‏

مسند احمد میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وضو کا پانی رکھا کرتا تھا اور جوتیاں لا کر رکھ دیتا تھا، بیمار پڑا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لائے، اس وقت اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں «‏‏‏‏لا الہٰ الا اللہ» ‏‏‏‏کہہ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور باپ کو خاموش دیکھ کر خود بھی خاموش ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا ابوالقاسم کی مان لے صلی اللہ علیہ وسلم پس اس بچے نے کہا «اشھد ان لا الہٰ الا اللہ وانک رسول اللہ» وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم سے بچا لیا۔ [صحیح بخاری:5657] ‏‏‏‏ یہی حدیث صحیح بخاری میں سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ بھی لائے ہیں، ان کے سوا اور بھی بہت سی صحیح حدیثیں بھی اور قرآن کریم کی آیتیں ہیں۔
1044



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.