[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا تجھ سے پہلے کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو ان میں سے جن لوگوں نے مذاق اڑایا انھیں اسی چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ [41] کہہ کون ہے جو رات اور دن میں رحمان سے تمھاری حفاظت کرتا ہے، بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ [42] یا ان کے لیے ہمارے سوا کوئی اور معبود ہیں، جو انھیں بچاتے ہیں؟ وہ نہ خود اپنی جانوں کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جاتا ہے۔ [43] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وه ہنسی اڑاتے تھے [41] ان سے پوچھئے کہ رحمٰن سے، دن اور رات تمہاری حفاﻇت کون کر سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے ذکر سے پھرے ہوئے ہیں [42] کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچا لیں۔ کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے رفاقت دیا جاتا ہے [43]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ استہزاء ہوتا رہا ہے تو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا کرتے تھے ان کو اسی (عذاب) نے جس کی ہنسی اُڑاتے تھے آگھیرا [41] کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں [42] کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو (مصائب سے) بچاسکیں۔ وہ آپ اپنی مدد تو کر ہی نہیں سکتے اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے [43]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 41، 42، 43،
انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” تمہیں جو ستایا جا رہا ہے، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے، اس پر پریشان نہ ہونا، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے “۔
جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ»[6-الأنعام:34] ، ” تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں۔ تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں “۔
پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ ” وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کر رہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں “۔
«مِنَ الرَّحْمَٰنِ» کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سوا ہیں۔ عربی شعروں میں بھی «مِنَ» بدل کے معنی میں ہے۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے۔ یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
پھر بطور انکار کے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کہ ” کیا ان کے معبود جو اللہ کے سوا ہیں، انہیں اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں؟ “ یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ گمان محض غلط ہے۔ بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی مدد و حفاظت کے بھی مالک نہیں۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ ” نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں “۔