تفسير ابن كثير



سورۃ الأنبياء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ[44] قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنْذَرُونَ[45] وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ[46] وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ[47]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلکہ ہم نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو سازو سامان دیا، یہاں تک کہ ان پر لمبی عمر گزر گئی، پھر کیا وہ دیکھتے نہیں کہ بیشک ہم زمین کو آتے ہیں، اسے اس کے کناروں سے گھٹاتے آتے ہیں، تو کیا وہی غالب آنے والے ہیں ؟ [44] کہہ دے میں تو تمھیں صرف وحی کے ساتھ ڈراتا ہوں اور بہرے پکار کو نہیں سنتے، جب کبھی ڈرائے جاتے ہیں۔ [45] اور یقینا اگر انھیں تیرے رب کے عذاب کی ایک لپٹ چھو جائے تو ضرور ہی کہیں گے ہائے ہماری بربادی! بلاشبہ ہم ہی ظالم تھے۔ [46] اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔ [47]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو زندگی کے سروسامان دیے یہاں تک کہ ان کی مدت عمر گزر گئی۔ کیا وه نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں، اب کیا وہی غالب ہیں؟ [44] کہہ دیجئے! میں تو تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاه کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاه کیا جائے [45] اگر انہیں تیرے رب کے کسی عذاب کا جھونکا بھی لگ جائے تو پکار اٹھیں کہ ہائے ہماری بدبختی! یقیناً ہم گنہگار تھے [46] قیامت کے دن ہم درمیان میں ﻻ رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ بھی ﻇلم نہ کیا جائے گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے ﻻ حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے [47]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بلکہ ہم ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادا کو متمتع کرتے رہے یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ان کی عمریں بسر ہوگئیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں۔ تو کیا یہ لوگ غلبہ پانے والے ہیں؟ [44] کہہ دو کہ میں تم کو حکم خدا کے مطابق نصیحت کرتا ہوں۔ اور بہروں کوجب نصیحت کی جائے تو وہ پکار کر سنتے ہی نہیں [45] اور اگر ان کو تمہارے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی پہنچے تو کہنے لگیں کہ ہائے کم بختی ہم بےشک ستمگار تھے [46] اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو کھڑی کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔ اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوگا تو ہم اس کو لاحاضر کریں گے۔ اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں [47]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 44، 45، 46، 47،

ذلت و رسوائی کے مارے لوگ ٭٭

کافروں کے کینے کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان ہو رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتا رہا، لمبی لمبی عمریں ملیں، انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں۔

اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ ” کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں؟ “ اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ الرعد میں ہم بیان کر آئے ہیں۔ لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں۔

جیسے فرمایا آیت «ووَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ» [46-الأحقاف:27] ‏‏‏‏، ” ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمہیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں “۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ” ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے آئے ہیں “۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:494/1:] ‏‏‏‏

کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کر دیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی امتوں کو اس نے ملیامیٹ کر دیا اور اپنے مومنوں کو نجات دے دی۔ کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں؟ نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں، ذلیل ہیں، رذیل ہیں، نقصان میں ہیں، بربادی کے ماتحت ہیں۔

میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں، یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کر دی ہیں، جن کے دل و دماغ بند کر دیئے ہیں، انہیں یہ اللہ کی باتیں سود مند نہیں پڑتیں۔ بہروں کو آگاہ کرنا بے کار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں۔ ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آ جائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بے ساختہ اپنے قصور کا اقرار کر لیتے ہیں۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے۔ «وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا» [18-الكهف:49] ‏‏‏‏ ” اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا “۔

اس لیے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لیے کافی ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہو جائے گا۔
5428

اور آیت میں فرمایا تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ فرمان ہے «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا» [4-النساء:40] ‏‏‏‏، ” اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے “۔

لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا، «يَابُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ» [31-لقمان:16] ‏‏‏‏ ” بیٹے ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، وہ اللہ اسے لائے گا، وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے “۔

بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ» ۔ [صحیح مسلم:2695] ‏‏‏‏
5429

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے۔ جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہوگا۔

پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ ” کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے؟ میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا؟ “ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ! نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلماً لکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” اچھا تیرے پاس کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے؟ “ وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں۔ پروردگار عالم فرمائے گا ” کیوں نہیں؟ بیشک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا “۔

اب ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں «اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» لکھا ہوا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” اسے پیش کرو “۔ وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا؟ جناب باری فرمائے گا ” تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا “۔

اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا۔ یہ جھک جائے گا اور وہ اونچے ہو جائیں گے اور اللہ رحمان و رحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہوگی
۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي:2639،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے گا اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے، وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہوگی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو۔ ایک چیز اس کی ابھی باقی رہ گئی ہے پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں «لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ» ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا ۔ [مسند احمد:221/2:حسن] ‏‏‏‏
5430

مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں، میری خیانت بھی کرتے ہیں، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں۔ اب فرمائیے میرا ان کا کیا حال ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی خیانت، نافرمانی، جھٹلانا و‏غیرہ جمع کیا جائے گا اور تیرا مارنا پیٹنا برا بھلا کہنا بھی۔ اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو تو چھوٹ گیا نہ عذاب نہ ثواب۔ ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کا فضل و کرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا ۔ یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ عنہ رونے لگے اور چیخنا شروع کردیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کیا ہو گیا؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ» [آیت:47] ‏‏‏‏ یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں
۔ [سنن ترمذي:3165،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
5431



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.