[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ [16] اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھیل بنائیں تو یقینا اسے اپنے پاس سے بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہوتے۔ [17] بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا دماغ کچل دیتا ہے، پس اچانک وہ مٹنے والا ہوتا ہے اور تمھارے لیے اس کی وجہ سے بربادی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ [18] اور اسی کا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ زرہ برابر تھکتے ہیں۔ [19] وہ رات اور دن تسبیح کرتے ہیں، وقفہ نہیں کرتے۔ [20] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا [16] اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا اراده کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے [17] بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وه تمہاری لئے باعﺚ خرابی ہیں [18] آسمانوں اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں وه اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں [19] وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے [20]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے آسمان اور زمین کو جو اور (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو لہوولعب کے لئے پیدا نہیں کیا [16] اگر ہم چاہتے کہ کھیل (کی چیزیں یعنی زن وفرزند) بنائیں تو اگر ہم کو کرنا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے بنالیتے [17] بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے۔ اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری ہی خرابی ہے [18] اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک اور اُسی کا مال) ہیں۔ اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ کنیاتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں [19] رات دن (اُس کی) تسبیح کرتے رہتے ہیں (نہ تھکتے ہیں) نہ اکتاتے ہیں [20]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18، 19، 20،
آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں ٭٭
«وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى»[53-النجم:31] ” آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے “۔ اس نے انہیں بے کار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔
اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ «وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ»[38-ص:27] ” یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے “۔
دوسری آیت [21-الأنبياء:17] کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ” اگر ہم کھیل تماشا ہی چاہتے تو اسے بنا لیتے “۔ ایک معنی یہ ہیں کہ ” اگر ہم عورت کرنا چاہتے “۔ «اللَّهْوُ» کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:420/18:] یعنی یہ دونوں معنی ہیں، ” ہم اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے، کسی کو بنا لیتے “۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ” اگر ہم اولاد چاہتے “۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔
جیسے فرمان ہے آیت «لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحٰنَهٗ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ»[39-الزمر:4] ، یعنی ” اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو اپنی مخلوق میں سے کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے “۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔
پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر علیہم السلام۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ «سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا»[17-الاسراء:43] ان عیسائیوں، یہودیوں اور کفار مکہ کی ان لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔
آیت «إِن كُنَّا فَاعِلِينَ» میں «إِن» کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ” ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے “۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:421/18:] بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ”قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لیے ہی ہے۔“[الدر المنشور للسیوطی:620/5:]
5392
فرشتوں کا تذکرہ ٭٭
” ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہو جاتا ہے اور فوراً ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی اسی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لیے جو لوگ اولادیں ٹھہرا رہے ہیں، ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لیے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے “۔
پھر ارشاد فرماتا ہے کہ ” جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو، ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں “۔
«لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا»[4-النساء:172] ” نہ مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آ رہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہو گا اور اپنا کیا بھرے گا “۔
یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں، اس کی عبادت میں، اس کی تسبیح و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔
«لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ»[66-التحریم:6] ” اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں “۔
5393
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تھے کہ فرمایا: لوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہیئے، اس لیے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1060،]
عبداللہ بن حارث بن نوفل فرماتے ہیں، میں کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا، میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا، اللہ کا پیغام لے کر جانا، عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہوکر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ بچہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب میں سے ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا، ”پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لیے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے، بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:12/17:]