[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا، پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ بنا، نہ توپکڑے جانے سے خوف کھائے گا اور نہ ڈرے گا۔ [77] پس فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انھیں سمندر سے اس چیز نے ڈھانپ لیا جس نے انھیں ڈھانپا۔ [78] اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور سیدھے راستے پر نہ ڈالا۔ [79] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل، اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنا لے، پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطره ہوگا نہ ڈر [77] فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے واﻻ تھا [78] فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا [79]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ پھر ان کے لئے دریا میں (لاٹھی مار کر) خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو (فرعون کے) آپکڑنے کا خوف ہوگا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر [77] پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تو دریا (کی موجوں) نے ان پر چڑھ کر انہیں ڈھانک لیا (یعنی ڈبو دیا) [78] اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا اور سیدھے رستے پر نہ ڈالا [79]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 77، 78، 79،
بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب ٭٭
چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کر دے، اس لیے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بے خبری میں تمام بنی اسرائیل کو چپ چاپ لے کر یہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے۔
چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے ہجرت کی۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیلی نہ دیکھا۔ فرعون کو اطلاع دی، وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکر جمع ہو جائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کر دوں گا۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا، اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔
بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا، گھبرا کر اپنے نبی علیہ السلام سے کہنے لگے، لو اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچھے فرعونی ہیں۔ آپ نے جواب دیا، گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میری مدد پر خود میرا رب ہے، وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا۔ اسی وقت وحی الٰہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مارو، وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دیدے گا۔
5297
چنانچہ آپ نے یہ کہہ کر لکڑی ماری کہ اے دریا! بحکم الٰہی تو ہٹ جا۔ اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے۔ ادھر ادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا۔
فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا، ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہو گیا اور چشم زدن میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیز نے ڈھانپ لیا۔ یہ اس لیے کہ یہ مشہور ومعروف ہے نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے۔
اسی جیسی آیت «وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى * فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى»[53-النجم:53-54] ہے ” یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا۔ پھر ان پر جو تباہی آئی، سو آئی۔ “ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔
الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی۔ جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا، «يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ» [11-هود:98] ” اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے۔ “