[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جو اس کے پاس مومن بن کر آئے گا کہ اس نے اچھے اعمال کیے ہوںگے تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے سب سے بلند درجے ہیں۔ [75] ہمیشگی کے باغات، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔ [76] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو بھی اس کے پاس ایمان کی حالت میں حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کیے ہوں گے اس کے لئے بلند وباﻻ درجے ہیں [75] ہمیشگی والی جنتیں جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔ یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا [76]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو اس کے روبرو ایماندار ہو کر آئے گا اور عمل بھی نیک کئے ہوں گے تو ایسے لوگوں کے لئے اونچے اونچے درجے ہیں [75] (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اور یہ اس شخص کا بدلہ ہے جو پاک ہوا [76]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 75، 76،
باب
مسند احمد میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے۔ ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے جان نکل جائے گی۔ پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالاجائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے، اسی طرح وہ اگیں گے۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں۔ [صحیح مسلم:185]
اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور جو اللہ سے قیامت کے دن ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا، اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں، اس کی چھت رحمان کا عرش ہے۔ اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کیا کرو۔ [سنن ترمذي:2531،قال الشيخ الألباني:صحیح]
5294
ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں، ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں، دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان و زمین میں۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی۔ ہر جنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لیے ہی مخصوص ہونگے؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور نبیوں کو سچا جانا۔ [صحیح بخاری:3256]
سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما انہی میں سے ہیں۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں۔ [سنن ابوداود:3987،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابد الاباد رہیں گے۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں، گناہوں سے، خباثت سے، گندگی سے، شرک و کفر سے دور رہیں، اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں، رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں، ان کے لیے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں «رَزَقَّنَا الّلهُ اِيَّاھَا» ۔