[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو یقینا اسی کے لیے جہنم ہے، نہ وہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔ [74] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بات یہی ہے کہ جو بھی گنہگار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ ہے، جہاں نہ موت ہوگی اور نہ زندگی [74]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو شخص اپنے پروردگار کے پاس گنہگار ہو کر آئے گا تو اس کے لئے جہنم ہے۔ جس میں نہ مرے گا نہ جیئے گا [74]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 74،
ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب ٭٭
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں، انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں۔ اسے اللہ کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی ہی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی۔
جیسے فرمان ہے «لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ» [35-فاطر:36] ” یعنی نہ تو موت ہی آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے، کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ “
اور آیتوں میں ہے «وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى * الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ * ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ» [87-الأعلى:11-13] ” یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بے فیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو۔ “
اور آیت میں ہے کہ «وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَ» [43-الزخرف:77] ” جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ! تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دیدے “ لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے۔