تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا[27] يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا[28] فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[29]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر وہ اسے اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے آئی، انھوں نے کہا اے مریم! یقینا تو نے تو بہت انوکھا کام کیا ہے۔ [27] اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی۔ [28] تو اس نے اس کی طرف اشارہ کر دیا، انھوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے۔ [29]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لئے ہوئے وه اپنی قوم کے پاس آئیں۔ سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی [27] اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی [28] مریم نے اپنے بچے کی طرف اشاره کیا۔ سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ [29]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا [27] اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی [28] تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں [29]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 27، 28، 29،

تقدس مریم اور عوام ٭٭

حضرت مریم علیہا السلام نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کر لیا اور اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تو نے تو بڑا ہی برا کام کیا۔‏‏‏‏

نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے؟

اس نے کہا نہیں! لیکن میں نے رات کو ایک عجیب بات یہ دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گرگئیں۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آ رہا تھا۔‏‏‏‏

وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو لیے ہوئے آتی دکھائی دے گئیں، انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے بیٹھ گئیں۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن!، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ہارون کی نسل سے تھیں۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت وریاضت مریم صدیقہ کی تھی۔ اس لیے انہیں ہاورن کی بہن کہا گیا۔ کوئی کہتا ہے، ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا، اس لیے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا۔
5060

ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ آپ ہارون وموسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے۔‏‏‏‏ یہ قول تو بالکل غلط معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے، آپ علیہ السلام کے بعد صرف خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہوئے ہیں۔

چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لیے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان میں اور کوئی نبی نہیں گزرا ۔ [صحیح بخاری:2442] ‏‏‏‏

پس اگر محمد بن کعب قرظی کا یہ قول کہ آپ ہارون علیہ السلام کی سگی بہن تھیں، ٹھیک ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ داؤد علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہوآیت «أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ» الخ [2-البقرہ:251-246] ‏‏‏‏، ان آیتوں میں داؤد علیہ السلام کا واقعہ اور آپ علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے «وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ» [2-البقرہ:251] ‏‏‏‏ اور لفظ موجود ہیں کہ ” یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے “۔

انہیں جو غلطی لگی ہے، اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا، اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کی بہن تھیں، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے، آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں۔ اس عبارت سے قرظی رحمہ اللہ نے یہ سمجھ لیا کہ یہی عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے۔

ممکن ہے موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں، اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو، ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے۔
5061

مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا۔ وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے گزرے ہیں، مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ جب میں مدینے واپس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے ۔ [صحیح مسلم:2135] ‏‏‏‏ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں۔
5062

ایک مرتبہ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ یہ ہارون، موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون علیہ السلام نہیں، اس پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکار کیا، تو آپ نے کہا کہ اگر آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ یہ سن کر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23689:] ‏‏‏‏

اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مریم علیہا السلام کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتاً چلی آ رہی تھی۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے، اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور پر عام شوق ہو گیا تھا۔ یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے۔

الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہو گئی تم تو نیک کوکھ کی بچی ہو، ماں باپ دونوں صالح، سارا گھرانہ پاک، پھر تم نے یہ کیا حرکت کی؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھ لو۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا؟
5063



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.