[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس نے کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ [30] اور مجھے بہت برکت والا بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی خاص تاکید کی، جب تک میں زندہ رہوں۔ [31] اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔ [32] اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جائوں گا۔ [33] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بنده ہوں۔ اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے [30] اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زنده رہوں [31] اور اس نے مجھے اپنی والده کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیا [32] اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے [33]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے [30] اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے [31] اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا [32] اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے [33]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 30، 31، 32، 33،
باب
اتنے میں بن بلائے آپ علیہ السلام بول اٹھے کہ ”لوگو! میں اللہ کا ایک غلام ہوں۔“ سب سے پہلا کلام عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ہے۔ اللہ کی تنزیہہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کر دیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی، پھر اپنی نبوت کا اظہار کیا کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے۔ اس میں اپنی والدہ کی برأت بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں، رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا۔
عکرمہ رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں ”مجھے کتاب دی“ اس کا مطلب یہ ہے کہ دینے کا ارادہ ہو چکا ہے یہ پورا ہوکر رہے گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اسی وقت آپ علیہ السلام کو کتاب یاد تھی، سب سیکھے ہوئے ہی پیدا ہوئے تھے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:487/4:] لیکن اس قول کی سند ٹھیک نہیں۔ میں جہاں بھی ہوں، لوگوں کو بھلائی سکھانے والا، انہیں نفع پہنچانے والا ہوں۔
5066
ایک عالم اپنے سے بڑے عالم سے ملے اور دریافت کیا کہ مجھے اپنے کس عمل کے اعلان کی اجازت ہے، فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لیے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا۔
پس جماعتی مسئلہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے، آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے۔ فرماتے ہیں، مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز و زکوٰۃ کا پابند رہوں۔ یہی حکم ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا۔ ارشاد ہے «وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ»[15-الحجر:99] ” مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ “۔
پس عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ”اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں۔“ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہو جاتی ہے۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے۔
عموماً قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت «وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا»[17-الإسراء:23] اور آیت «اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ»[31-لقمان:14] میں۔
اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یا والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں۔ کہتے ہیں جبار وشقی وہ ہے جو غصے میں آ کر خونریزی کر دے۔
5067
فرماتے ہیں، ”ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو۔“
مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی، مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا، ”مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی، پھر تابعداری کی اور سرکش اور بدبخت نہ بنا۔“
پھر فرماتے ہیں، ”میری پیدائش کے دن، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پرسلامتی ہے۔“ اس سے بھی آپ علیہ السلام کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الٰہی ہونا ثابت ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے۔ پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں۔ آپ علیہ السلام پر آسان اور سہل ہوں گے۔ نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ «صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ» ۔