[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص قتل کر دیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہو گا۔ [33] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈاﻻ جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیئے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بےشک وه مدد کیا گیا ہے [33]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس کا جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت) ۔ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیئے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتحیاب ہے [33]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 33،
ناحق قتل ٭٭
بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو۔ [صحیح بخاری:6878]
سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کے قتل سے زیادہ آسان ہے۔ [سنن ترمذي:1395،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اگر کوئی شخص ناحق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لیے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لیے کہ یہ بھی اموی تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی اموی تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کر رہے تھے۔ ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تاوقتیکہ آپ قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے انکار کر دیا۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے حکمران بن گئے۔
4690
معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے نہ ایسی اعلانیہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس وقت میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کر لیں، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ہوں گے تو نکال لیے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم (سیدنا) معاویہ (رضی اللہ عنہ) تم پر بادشاہ ہو جائیں گے، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے، جو مظلوم مار ڈالا جائے، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہیئے الخ۔
سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پالی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے۔ [طبرانی کبیر:320/10:]
اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہیئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے۔ کان، ناک، کاٹے یا قاتل کے سوا اور سے بدلہ لے۔ ولی مقتول شریعت، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے۔