[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش! وہ کسی طرح کے مسلم ہوتے۔ [2] انھیں چھوڑ دے، وہ کھائیں اور فائدہ اٹھائیں اور انھیں امید غافل رکھے، پھر جلدی جان لیں گے۔ [3] اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر اس حال میں کہ اس کے لیے ایک مقرر لکھا ہوا وقت تھا۔ [4] کوئی امت اپنے مقرر وقت سے نہ آگے بڑھتی ہے اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه بھی وقت ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے [2] آپ انہیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئے یہ خود ابھی جان لیں گے [3] کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے مقرره نوشتہ تھا [4] کوئی گروه اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش وہ مسلمان ہوتے [2] (اے محمد) ان کو اُن کے حال پر رہنے دو کہ کھالیں اور فائدے اُٹھالیں اور (طول) امل ان کو دنیا میں مشغول کئے رہے عنقریب ان کو (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا [3] اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی۔ مگر اس کا وقت مرقوم ومعین تھا [4] کوئی جماعت اپنی مدت (وفات) سے نہ آگے نکل سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 2، 3، 4، 5،
بعد ازمرگ پشیمانی ٭٭
کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی۔
اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ»[6-الأنعام:27] ” جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں “۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔
سیدنا ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے گا۔
4278
اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ ” جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو “، الخ۔
طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا۔ اور نہر حیات میں غوطہٰ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصداً جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے۔“[طبرانی:7289:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «اعُوذُ بِاللّهِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کا پڑھنا ہے ۔ [طبرانی کبیر:48/7:صحیح الاسناد]
4279
اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا، اس وقت مشرک لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے ۔ [طبرانی اوسط:8106:ضعیف]
یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا۔
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہوگا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نضاری اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا۔ یہ ہے فرمان آیت «رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ»[15-الحجر:2] میں ہے ۔ [ابن الجوزی فی العلل المتناهییة:1568/2:ضعیف]
پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ «قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ»[14-ابراھیم:30] ” انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے “۔
تم کھا پی لو، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی۔
4280
اتمام حجت کے بعد ٭٭
” ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے۔ ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے “۔
اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے۔