تفسير ابن كثير



سورۃ يونس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ[46] وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ[47]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اگر کبھی ہم تجھے اس کا کچھ حصہ واقعی دکھلا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں، یا تجھے اٹھا ہی لیں تو ہماری ہی طرف ان کا لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ اس پر اچھی طرح گواہ ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ [46] اور ہر امت کے لیے ایک پیغام پہنچانے والا ہے، تو جب ان کا پیغام پہنچانے والا آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جاتے۔ [47]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جس کا ان سے ہم وعده کر رہے ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا اگر ہم آپ کو دکھلا دیں یا (ان کے ﻇہور سے پہلے) ہم آپ کو وفات دے دیں، سو ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے۔ پھر اللہ ان کے سب افعال پر گواه ہے [46] اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہے، سو جب ان کا وه رسول آچکتا ہے ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور ان پر ﻇلم نہیں کیا جاتا [47]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر ہم کوئی عذاب جس کا ان لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے (نازل) کریں یا (اس وقت جب) تمہاری مدت حیات پوری کردیں تو ان کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے پھر جو کچھ یہ کر رہے ہیں خدا اس کو دیکھ رہا ہے [46] اور ہر ایک اُمت کی طرف سے پیغمبر بھیجا گیا۔ جب ان کا پیغمبر آتا ہے تو اُن میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر کچھ ظلم نہیں کیا جاتا [47]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 46، 47،

اللہ تعالی مقتدر اعلی ہے ٭٭

فرمان ہے کہ ” اگر تیری زندگی میں ہم ان کفار پر کوئی عذاب اتاریں یا تجھے ان عذابوں کے اتارنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیں، بہر صورت ہے تو یہ سب ہمارے قبضے میں ہی اور ٹھکانا ان کا ہمارے ہاں ہی ہے، اور ہم پر ان کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں “۔

طبرانی کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات اسی حجرے کے پاس میرے سامنے میری ساری امت پیش کی گئی کسی نے پوچھا کہ اچھا موجود لوگ تو خیر لیکن جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے وہ کیسے پیش کئے گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی مٹی کے جسم پیش کئے گئے جیسے تم اپنے کسی ساتھی کو پہچانتے ہو ایسے ہی میں نے انہیں پہچان لیا ۔ [طبرانی کبیر3055:ضعیف ] ‏‏‏‏

ہر امت کے رسول ہیں۔ جب کسی کے پاس رسول پہنچ گیا پھر حجت پوری ہوگئی۔ اب قیامت کے دن ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ بغیر کسی ظلم کے حساب چکا دیا جائے گا۔ جیسے «وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ» [39-الزمر:69] ‏‏‏‏ والی آیت میں ہے۔ ہر امت اللہ کے سامنے ہو گی، رسول موجود ہو گا، نامہ اعمال ساتھ ہو گا، گواہ فرشتے حاضر ہوں گے، ایک کے بعد دوسری امت آئے گی اس شریف امت کا فیصلہ سب سے پہلے ہو گا۔ گو دنیا میں یہ سب سے آخر میں آئی ہے۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔ ہماری فیصلے سب سے اول ہوں گے [صحیح بخاری:6624] ‏‏‏‏۔

اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و شرف کی وجہ سے یہ امت بھی اللہ کے ہاں شریف و افضل ہے۔
3708



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.